تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دم جھاڑ کرنے پر اجرت لینا جائز ہے بلکہ پہلے سے طے کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی احتیاط قابل ملاحظہ ہے کہ جب تک انہیں اس کے حلال یا جائز ہونے کا علم نہیں ہوا بکریوں کو ہاتھ نہیں لگایا، البتہ دم جھاڑ کے لیے فارغ ہو جانا اور اسے ذریعۂ معاش بنا لینا انتہائی مذموم ہے۔ یہ طریقہ سلف صالحین کے ہاں غیر معروف ہے اور یہ دم کرنے والے، کروانے والے کو برائی اور فساد کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ جس طرح کسی بزرگ سے دعا کروانا تو جائز ہے لیکن اس بزرگ کا اس کام کے لیے فارغ ہو کر بیٹھ رہنا تاکہ لوگ اس کے پاس آ کر دعا کرائیں درست نہیں۔ ایسا کرنے سے کئی ایک مفاسد کے جنم لینے کا اندیشہ ہے۔