تشریح:
(1) اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی کرے تو اس کا اثر نہیں ہو سکتا جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور اس کا اثر بھی آپ پر ہوا۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نبی پر جادو کا اثر ہونا تو قرآن سے ثابت ہے۔ فرعون کے جادوگروں نے جب لوگوں کے مجمع میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو وہ سانپ بن کر دوڑنے لگیں۔ اس دہشت کا اثر موسیٰ علیہ السلام پر ہوا جس کا قرآن نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: ’’موسیٰ اپنے دل میں ڈر گئے تو ہم نے کہا: ڈرو نہیں، تم ہی غالب رہو گے۔‘‘ (طه: 67/20، 68)
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو کے اثر سے کمزوری محسوس کی تاکہ یہود کو معلوم ہو جائے کہ جادو کے عمل میں کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جادو کے موثر ہونے کے باوجود اپنے نبی کو محفوظ رکھا جس طرح یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہریلا گوشت کھلا دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر کے اثر سے محفوظ رکھا۔ واضح رہے کہ یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو سے شہید کرنا چاہتے تھے۔
(3) اس حدیث پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کفار کی بات نقل کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحر زدہ (مسحور) کہتے تھے۔ (الفرقان: 25/8) اگر آپ پر جادو کی اثر پذیری تسلیم کر لیں تو گویا ہم بھی کفار کے ہم نوا بن گئے۔ یہ اعتراض بھی بے بنیاد اور لغو ہے کیونکہ کفار کا الزام یہ تھا کہ نبی نے اپنی نبوت کے دعوے کا آغاز ہی سحر زدگی اور جنون سے کیا ہے اور یہ جو کچھ قیامت، آخرت، حشر و نشر اور جنت و دوزخ کے افسانے سناتا ہے وہ سب جادو کا اثر اور پاگل پن کی باتیں ہیں لیکن اس حدیث کا کفار کے اس قول سے کوئی تعلق نہیں۔ نبی بہرحال انسان ہوتے ہیں، اس لیے وہ جسمانی تشدد اور ذہنی پریشانی سے دوچار ہو سکتے ہیں، جس طرح طائف اور اُحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے ہاتھوں زخمی ہوئے تھے۔ یہ چیز منصب نبوت کے منافی نہیں، البتہ اس واقعے کا یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز جادوگر نہ تھے کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا۔ واللہ المستعان