قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطِّبِّ (بَابُ السِّحْرِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى المَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ المَرْءِ وَزَوْجِهِ، وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ، وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنْفَعُهُمْ، وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ} [البقرة: 102] وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلاَ يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَى} [طه: 69] وَقَوْلِهِ: {أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ} [الأنبياء: 3] وَقَوْلِهِ: {يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى} [طه: 66] وَقَوْلِهِ: {وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي العُقَدِ} [الفلق: 4] وَالنَّفَّاثَاتُ: السَّوَاحِرُ، {تُسْحَرُونَ} [المؤمنون: 89]: تُعَمَّوْنَ

5763. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَحَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، يُقَالُ لَهُ لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ، حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ كَانَ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهُوَ عِنْدِي، لَكِنَّهُ دَعَا وَدَعَا، ثُمَّ قَالَ: يَا عَائِشَةُ، أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ، أَتَانِي رَجُلاَنِ، فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ فَقَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ، قَالَ: فِي أَيِّ شَيْءٍ؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ، وَجُفِّ طَلْعِ نَخْلَةٍ ذَكَرٍ. قَالَ: وَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَجَاءَ فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ، كَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ، أَوْ كَأَنَّ رُءُوسَ نَخْلِهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَفَلاَ اسْتَخْرَجْتَهُ؟ قَالَ: «قَدْ عَافَانِي اللَّهُ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ فِيهِ شَرًّا» فَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ تَابَعَهُ أَبُو أُسَامَةَ، وَأَبُو ضَمْرَةَ، وَابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامٍ، وَقَالَ: اللَّيْثُ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامٍ: «فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ» يُقَالُ: المُشَاطَةُ: مَا يَخْرُجُ مِنَ الشَّعَرِ إِذَا مُشِطَ، وَالمُشَاقَةُ: مِنْ مُشَاقَةِ الكَتَّانِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا ” لیکن شیطان کافر ہوگئے وہی لوگوں کو سحر یعنی جادو سکھلاتے ہیں اور اس علم کی بھی تعلیم دیتے ہیں جو مقام بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتار ا گیا تھا اور دونوں کسی کو بھی اس علم کی باتیں نہیں سکھلاتے تھے۔ جب تک یہ نہ کہہ دیتے دیکھو اللہ نے ہم کو دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے تو جادو سیکھ کر کافر مت بن مگر لوگ ان دونوں کے اس طرح کہہ دینے پر بھی ان سے وہ جادو سیکھ ہی لیتے جس سے وہ مرداور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں اور یہ جادو گر جادو کی وجہ سے بغیر اللہ کے حکم کے کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ۔ غرض وہ علم سیکھتے ہیں جس سے فائدہ تو کچھ نہیں الٹا نقصان ہے اور یہودیوں کو بھی معلوم ہے کہ جو کوئی جادو سیکھے اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ رہا ۔ “ اور سورۃ طہ میں فرمایا کہ ” جادو گر جہاں بھی جائے کمبخت نا مراد نہیں ہوتا۔ “ اور سورۃ انبیاءمیں فرمایا ”کیا تم دیکھ سمجھ کر جادو کی پیروی کرتے ہو“ اور سورۃ طہ میں فرمایا کہ ” حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کے جادو کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ کی طرح دوڑ رہی ہیں“ اور سورۃ فلق میں فرمایا ” اور بدی ہے ان عورتوں کی جو گر ہوں میں پھونک مارتی ہیں۔ “ اور سورۃ مومنون میں فرمایا فانٰی تسحرون ” یعنی پھر تم پرکیا جادو کی مار ہے۔

5763.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بنو زریق کے ایک یہودی شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا، جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو کسی چیز کے متعلق خیال ہوتا کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا حتیٰ کہ ایک دن یا رات آپ ﷺ میرے پاس تھے اور آپ نے بار بار دعا کی پھر فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے اللہ تعالٰی سے پوچھا تھا: اللہ تعالٰی نے مجھے اس کا جواب دے دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی پوچھا: اس صاحب کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے۔ اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو کیا ہے)؟ دوسرے نے بتایا کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں، یہ جادو کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ذروان کے کنویں میں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اپنے چند صحابہ کرام کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ جب وآپس آئے فرمایا: ”اے عائشہ! اس کنویں کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ ہے۔ وہاں کی کھجوروں کے سر گویا شیطانوں کے سر ہیِں۔ “ میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس جادو کو نکالا نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے عافیت دے دی ہے، اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ خواہ مخواہ لوگوں میں اس کی برائی پھیلاؤں۔“ پھر آپ نے جادو کے سامان کو دفن کرنے کا حکم دے دیا ابو اسامہ، ابو ضمر اور ابن زناد نے ہشام سے روایت کرنے میں عیسیٰ بن یونس کی متابعت کی ہےلیث اور ابن عینیہ نے ہشام سے روایت کرتے ہوئے مشط اور مشاطة کا ذکر کیا ہے مشاطہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو کنگھی کرتے ہوئے نکل آئیں مشاقة دراصل روئی کے تار کو کہتے ہیں۔