قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطِّبِّ (بَابُ السِّحْرِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

5766. حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا فَعَلَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ عِنْدِي، دَعَا اللَّهَ وَدَعَاهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَشَعَرْتِ يَا عَائِشَةُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَااسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ» قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: جَاءَنِي رَجُلاَنِ، فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي، وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ اليَهُودِيُّ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ، قَالَ: فِيمَا ذَا؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذِي أَرْوَانَ قَالَ: فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ إِلَى البِئْرِ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَعَلَيْهَا نَخْلٌ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَ: «وَاللَّهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَأَخْرَجْتَهُ؟ قَالَ: «لاَ، أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِيَ اللَّهُ وَشَفَانِي، وَخَشِيتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا» وَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ

مترجم:

5766.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فر تھے تو آپ نے اللہ تعالٰی سے دعا کی پھر دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھئ اس کا جواب اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھی اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا : کس نے جادو کیا ہے؟ دسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے جو قبیلہ بنو زریق سے تعلق رکھتا ہے پہلے نے کہا: کس چیز میں (جادو) کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں جو نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھا ہوا ہے۔ اس نے پوچھا وہ کہاں رکھا ہے؟ اس نے جواب دیا: ”ذروان نامی کنویں میں رکھا ہے۔“ نبی ﷺ اپنے چند صحابہ کوساتھ لے کر اس کنویں پر تشریف لے گئے اسے دیکھا وہاں کھجور کے درخت تھے، پھر آپ واپس سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! اس کنویں کا پانی مہندی کے نچوڑ جیسا سرخ ہے اور وہاں کی کھجوریں گویا شیطانوں کے سر ہیں۔“ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اسے نکالا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ بہر کیف اللہ تعالٰی مجھے شفا دے دی ہے اب مجھے اندیشہ ہے کہ مبادا لوگوں میں کوئی شر پیدا ہو۔ پھر آپ نے اسے دفن کر دینے کا حکم دیا۔