تشریح:
(1) راوی ابو سلمہ کا یہ خیال محل نظر ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھولنے کی وجہ سے حدیث کا انکار کیا بلکہ انکار کی وجہ ان کا حدیث کو تعارض کی شکل میں پیش کرنا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس پر ناراضی ہوئی تو انہوں نے حبشی زبان میں اپنی ناراضی کا اظہار کیا، حالانکہ احادیث میں تعارض نہیں بلکہ دونوں الگ الگ مضمون پر مشتمل ہیں۔ پہلی حدیث سے جاہلوں کے اس عقیدے کی نفی کرنا مقصود ہے کہ بیماری طبعی طور پر ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت سے حصول ضرر کی نفی نہیں ہے اور دوسری حدیث میں بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس لے جانے کی ممانعت اس لیے ہے کہ کم علم لوگ فضول اوہام میں مبتلا ہو جائیں کہ صحت مند اونٹ، بیمار اونٹ کی وجہ سے بیمار ہو گئے، اس طرح وہ عدوٰی کے قائل ہو جائیں گے، حالانکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔
(2) یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھولنے کی وجہ سے انکار کیا ہو جیسا کہ ابو سلمہ نے کہا ہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کیونکہ بھول جانا بشری تقاضا ہے لیکن حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس کے بعد کوئی حدیث نہیں بھولا ہوں۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 119)
(3) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے جہلاء کے اس عقیدے کی نفی کی ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی کھوپڑی سے ایک زہریلا کیڑا نکلتا ہے جو مسلسل آواز دیتا ہے: مجھے پلاؤ، مجھے پلاؤ۔ جب مقتول کا بدلہ لے لیا جائے تو وہ غائب ہو جاتا ہے۔ اس عقیدے کی کوئی حیثیت نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا: عربوں کے توہمات میں سے ایک یہ تھا کہ اگر کوئی قتل ہو جائے اور اس کا بدلہ نہ لیا جائے تو مردے کی کھوپڑی سے ایک الو برآمد ہوتا ہے جو اس کے اوپر منڈلاتا رہتا ہے اور آواز دیتا ہے: پیاس، پیاس، اگر مقتول کا بدلہ لے لیا جائے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے، اس وہم کی بنیاد پر وہ لوگ جیسے بھی بن پڑتا بدلہ لینے پر اصرار کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وہم کی تردید فرمائی ہے۔ واللہ أعلم