تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے سمجھایا کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ مؤثر حقیقی وہی ہے۔ یہ بات سرے سے غلط ہے کہ ایک خارش زدہ اونٹ نے باقی اونٹوں کو خارشی بنا دیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام اونٹ خارش زدہ ہو جاتے، حالانکہ گلے میں کتنے ہی اونٹ ہوتے ہیں جو اس مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔
(2) اگر کہا جائے کہ پہلے اونٹ کو بھی کسی دوسرے اونٹ سے خارش لگی تھی تو پھر سوال ہو گا کہ اس اونٹ کو کس سے لگی؟ بالآخر تسلسل لازم آئے گا جو محال ہے، یا یہ کہنا ہو گا کہ ایک اونٹ کو خود بخود خارش پیدا ہوئی تھی اور اسے پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ تھا۔
(3) بیماری کے اسباب سے پرہیز کرنا چاہیے جیسا کہ آپ نے بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹ کے ساتھ ملانے کی ممانعت فرمائی ہے۔ اب جو دیکھنے میں آتا ہے کہ طاعون اور ہیضے جیسی بیماریاں ایک شہر سے دوسرے شہر میں پھیلتی ہیں یا ایک شخص سے دوسرے کو لگ جاتی ہیں تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بیماری بذات خود متعدی ہے اور دوسرے کو منتقل ہوئی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دوسرے شہر یا دوسرے شخص میں بھی پیدا ہوئی ہے، چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک گھر میں کچھ لوگ طاعون یا ہیضے کی بیماری سے لقمہ اجل بن جاتے اور کچھ محفوظ رہتے ہیں اور ایک ہی ہسپتال میں ڈاکٹر حضرات طاعون اور ہیضے کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں، انہیں کچھ نہیں ہوتا، اگر بیماری بذات خود متعدی ہوتی تو سب اس سے متاثر ہوتے، لہذا وہی حق ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ کوئی بیماری بذات خود متعدی نہیں ہوتی، البتہ ایسے ذرائع اور اسباب سے ضرور پرہیز کرنا چاہیے جو اس بیماری کا باعث ہوں۔ واللہ أعلم