تشریح:
(1) اس عورت نے اپنے دوسرے شوہر عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نامرد ہونے کی طرف اشارہ کیا اور کپڑے کے پلو سے یہ تاثر دیا کہ اس کا آلۂ جماع کمزور ہے، میری شہوت پوری نہیں کر سکتا۔ اس کا خاوند اپنے دفاع کے لیے دو بچے ہمراہ لایا تاکہ اس کی کذب بیانی کو واضح کرے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر کی تصدیق کی اور عورت کی کذب بیانی محسوس فرما کر وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہے۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کی نافرمانی پر شوہر اسے پیٹ سکتا ہے۔ اگر ضرب شدید سے اس کا چمڑا متاثر ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ چونکہ وہ خاتون سبز رنگ کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان ثابت کیا ہے سبز رنگ کا کپڑا استعمال کیا جا سکتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں صراحت ہے، حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو میں نے آپ پر سبز رنگ کی دو دھاری دار چادریں دیکھی تھیں۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4065)
(3) سبز رنگ ایک پسندیدہ رنگ ہے، اہل جنت کے لیے ریشم کے سبز لباس کا ذکر قرآن کریم میں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان کے اوپر کی پوشاک باریک سبز ریشم اور موٹے ریشم کی ہو گی۔‘‘ مگر سبز رنگ کو بطور شعار اختیار کرنا قطعاً پسندیدہ نہیں۔ واللہ أعلم