تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے بعد ذوالحجہ چھ ہجری میں جب مدینہ طیبہ واپس آئے تو آپ نے عجمی بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھنے کا ارادہ کیا۔ آپ سے کہا گیا کہ یہ لوگ اس خط کو نہیں پڑھتے جس پر مہر ثبت نہ ہو۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ کرایا تاکہ مہر لگنے کے بعد خط کی حیثیت سرکاری ہو جائے۔
(2) خطوط پر مہر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ حکومتی راز اور سیاسی تدابیر محفوظ رہیں اور ان کا عام چرچا نہ ہو۔ انگوٹھی پر کوئی عبارت بھی کندہ کی جا سکتی ہے۔ اللہ کا ذکر کندہ کرانے میں بھی کوئی حرج نہیں، البتہ استنجا کے وقت اسے اتار دینا چاہیے۔ نگینے میں کسی کی تصویر کندہ کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصاویر سے منع فرمایا ہے۔
(3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی پر شیر کی تصویر کندہ تھی جسے آپ پہنا کرتے تھے (المصنف لعبدالرزاق، 304/10، رقم: 19469) لیکن یہ روایت مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف بھی ہے اور صحیح احادیث کے خلاف بھی۔ (فتح الباري: 398/10)