تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1629) دراصل امام بخاری ؒ کے نزدیک ممنوع اوقات صرف دو ہیں: ایک نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک، دوسرا نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔ ان اوقات میں عین طلوع آفتاب اور عین غروب آفتاب بھی شامل ہیں، البتہ عین دوپہر کا وقت ممنوعہ اوقات میں شامل نہیں، حالانکہ اس کے متعلق متعدد احادیث ہیں، چنانچہ حدیث عمرو بن عبسہ صحیح مسلم میں، حدیث ابوہریرہ ابن ماجہ اور سنن بیہقی میں، حدیث صنابحی موطا امام مالک میں اور عقبہ بن عامر کی حدیث صحیح مسلم میں، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ عین دوپہر کے وقت نماز پڑھنا منع ہے۔ کچھ ضعیف احادیث بھی ہیں، اس بنا پر ائمۂ ثلاثہ اور جمہور محدثین نے وقت استوا کو ممنوعہ اوقات میں شامل کیا ہے۔ امام مالک ؒ نے اس کے خلاف موقف اختیار کیا ہے، فرماتے ہیں: میں نے اہل علم کودیکھا ہے۔ وہ بڑے اہتمام سے دوپہر کے وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔ انھوں نے حدیث صنابحی ذکر کی ہے، لیکن اسے ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل اعتنا خیال نہیں کیا، یا اہل مدینہ کے عمل کی وجہ سے اسے قابل حجت خیال نہیں کیا۔ امام شافعی نے دوپہر کے وقت کو اوقات ممنوعہ میں شمارکیا ہے لیکن وہ جمعے کے دن کو اس سے مستثنٰی کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت نے جمعے کے دن جلدی جلدی مسجد میں آنے کے متعلق کہا ہے اور امام کے آنے تک نماز پڑھنے کی تلقین کی ہے اور امام زوال آفتاب کے بعد آتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عین دوپہر کا وقت نماز کےلیے ممنوعہ اوقات میں سے نہیں۔ (فتح الباري:85/2) لیکن جمعے کا یہ استثنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہمارے نزدیک متعدد احادیث کے پیش نظر ممنوعہ اوقات پانچ ہیں:٭نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک۔ ٭عین طلوع آفتاب۔ ٭نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔ ٭عین غروب آفتاب۔ ٭ عین دوپہر کا وقت جب سورج سر پر ہو۔ ان اوقات میں غیر سببی نوافل پڑھنا منع ہیں۔ والله أعلم.
(2) بعض حضرات نے اوقات مکروہ کے درمیان کچھ فرق بیان کیا ہے، عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنا مکروہ ہے اور عین طلوع وغروب کے وقت نماز میں مشغول ہونا حرام ہے، کیونکہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھی تھی، اگر حرام ہوتی تو آپ کیوں پڑھتے؟ گویا آپ کا عمل بیان جواز کے لیے ہے۔ واضح رہے کہ عصر کے بعد نماز کے ممنوعہ وقت کی تحدید میں علماء کا اختلاف ہے، چنانچہ جمہور فقہاء کے نزدیک قضا اور سببی نماز کے علاوہ مطلق طور پر عصر کے بعد نماز جائز نہیں۔ البتہ امام شافعی ؒ نے ظہر کی سنت رہ جانے کی صورت میں عصر کے بعد پڑھنے کی اجازت دی ہے، تاہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت، متعدد تابعین اور بہت سے علماء کے نزدیک نماز عصر کے بعد جب تک سورج بلند، سفید اور چمکدار ہو، نفلی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ان کے ہاں عصر کے بعد نماز کی نہی مطلق نہیں بلکہ سورج زرد ہونے کے ساتھ مقید ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا مگر جبکہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:574) اس کے متعلق تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔ (3) ان ممنوعہ اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت اوقات اصلیہ کے اعتبار سے ہے۔ ان کےعلاوہ بھی چندایک مواقع پر نوافل میں مصروف ہونا منع ہے، مثلاً: ٭جب نماز کے لیے تکبیر کہہ دی جائے۔ ٭ جب امام خطبے کےلیے منبر پر چڑھ جائے۔ (الا یہ کہ کوئی اسی وقت مسجد میں آیا ہو) ٭ جب فرض نماز کی جماعت ہورہی ہو۔ ٭ مالکیہ کے نزدیک جمعے کےبعد لوگوں کے روزانہ ہونے تک۔ ٭احناف کے نزدیک نماز مغرب سے پہلے، اگرچہ حدیث میں اس کا بین ثبوت ملتا ہے جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ (فتح الباري: 84/2)