تشریح:
(1) اس حدیث کا عنوان سے کیا تعلق ہے؟ تاحال کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہو کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی اس عنوان کی پہلی اور تیسری حدیث ایک ہی ہے۔ کسی راوی نے اسے مختصر بیان کیا ہے جیسا کہ پہلی حدیث ہے اور کچھ راویوں نے اسے تفصیل سے بیان کر دیا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے متعلق کوئی معقول توجیہ ذکر نہیں کی۔ علامہ عینی نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ اس حدیث کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں بلکہ اس کا محل عنوان سابق ہے۔ (عمدة القاري: 90/15) واللہ أعلم
(2) کچھ حضرات سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل کا سہارا لے کر داڑھی کی کانٹ چھانٹ کو جائز خیال کرتے ہیں، لیکن ان کا یہ عمل سنت نبوی کے خلاف ہے، پھر ان کا یہ عمل صرف حج یا عمرے کے موقع پر تھا تاکہ وہ حلق اور قصر کو جمع کر کے دونوں فضیلتیں جمع کریں۔ وہ عام حالات میں اسے معمول نہیں بناتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ داڑھی بڑھانے کی حدیث کے راوی بھی ہیں، محدثین کا یہ اصول ہے کہ جب کسی راوی کا عمل اس کی بیان کی ہوئی روایت کے خلاف ہو تو راوی کے عمل کے بجائے اس کی بیان کی ہوئی روایت کا اعتبار ہوتا ہے۔ کتب حدیث میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔