تشریح:
(1) اذان وقت نماز کے لیے اعلان ہوتا ہے۔ جب نماز فوت ہوجائے تو شاید سمجھا جائے کہ اب اذان کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ وقت گزر گیا ہے، چنانچہ بعض حضرات ایسے وقت میں اذان نہ دینے کے قائل ہیں، اس لیے کے لوگ کہیں گے یہ بلاوقت اذان کیسی ہے؟ امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ فوت شدہ نماز کے لیے اذان کہی جاسکتی ہے، لیکن "ذھاب الوقت" کے الفاظ لا کر اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ فوت شدہ نماز کےلیے اذان اس وقت کہی جائے جب قضا، انقضائے وقت کے فوراً بعد ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر کئی دنوں کے بعد اسے یاد آئے تو اس وقت فوت شدہ نماز کےلیے اذان دینا شروع کر دے۔ اگر فوت شدہ کئی نمازیں ہیں تو پہلی نماز کےساتھ اذان اور اقامت اور باقی نمازوں کے ساتھ صرف اقامت کہنا اور انھیں باجماعت ادا کرنا مشروع ہے، جیسا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی چار نمازیں فوت ہوگئیں تو ادائیگی کے موقع پر حضرت بلال ؓ نے اذان دی پھر اقامت کہی تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر انھوں نے اقامت کہی تو آپ نے عصر پڑھائی۔ اور پھر اقامت کہی تو مغرب، پھر آخر میں اقامت کہنے کے بعد نماز عشاء ادا کی۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:179) یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، لیکن دیگر شواہد کی وجہ سے اس کا مفہوم صحیح ہے۔ اگر انسان کسی ایسی جگہ ہو جہاں اذان نہ کہی گئی ہوتو اذان کہنے کا اہتمام کیا جائے، بصورت دیگر اذان کہنا ضرری نہیں۔ البتہ ہر نماز کےلیے اقامت ضرور کہی جائے۔
(2) بعض اہل علم کا خیال ہے کہ نمازی جب غلبۂ نیند کی وجہ سے صبح کی نماز نہ پڑھ سکے، پھر جب وہ طلوع آفتاب کے وقت بیدار ہوتو اسے نماز پڑھنے کےلیے سورج کے خوب روشن ہونے تک انتظار کرنا چاہیے اور وہ اس حدیث کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں، حالانکہ اس حدیث میں وقت کراہت کی وجہ سے انتظار کرنے کا کوئی اشارہ تک نہیں بلکہ اس حدیث کے ایک طریق سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو سورج کی گرمی نے بیدار کیا، یعنی دن کافی چڑھ چکا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:437) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ضروری حوائج سے فراغت اور وضو کرنے تک کی مہلت دی، اتنے میں دن خوب روشن ہوچکا تھا، اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور نماز باجماعت کا اہتمام فرمایا۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7471) نیز حدیث میں ہے کہ جو نمازی اپنی نماز سے سورہے یا وہ بروقت ادا کرنا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب وہ بیدار ہویا جب اسے یاد آئے تو اسے پڑھ لے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 177) اس حدیث کا بھی تقاضا ہے کہ ایسے حالات میں نیند سے بیدار ہونے یایاد آنے پر اسے نماز پڑھ لینی چاہیے، اسے مزید انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس مسئلے کی مختصر طور پر وضاحت فرمائی ہے۔ (فتح الباري: 89/2)