تشریح:
(1) اس حدیث میں نماز عصر کے فوت ہونے کا ذکر ہے جبکہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث میں نماز ظہر اور نماز عصر کے رہ جانے کا بیان ہے۔ (مسند أحمد:3/25) اور حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں ہے کہ غزوہ خندق میں چار نمازیں رہ گئی تھیں۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي :4031) شارحین نے ان مختلف احادیث میں تطبیق کی حسب ذیل دو صورتیں بیان کی ہیں:٭صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح دی جائے اور باقی روایات کو مرجوح قرار دیا جائے۔ اس توجیہ کی تائید حضرت علی ؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ کفارہ قریش نے ہمیں غزوۂ خندق کے موقع پر صلاۃ وسطی، یعنی نماز عصر پڑھنے کا موقع نہ دیا۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث :1420(627))٭غزوۂ خندق کے موقع پر متعدد واقعات پیش آئے، کسی میں ایک نماز اور کسی میں اس سے زیادہ نمازیں فوت ہونے کا ذکر ہے۔ اس موقف کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ حضرت ابو سعید اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں حضرت عمر ؓ سے متعلق کوئی ذکر نہیں، نیز ان روایات میں ہے کہ فوت شدہ نمازیں نماز مغرب کا وقت گزر جانے کے بعد پڑھی گئیں جبکہ صحیح بخا ری کی حدیث کے مطابق نماز عصر غروب آفتاب کے بعد ادا کی گئی۔ (فتح الباري:92/2)
(2) اس حدیث میں فوت شدہ نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں، تاہم اسماعیلی کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عصر پڑھائی۔ اس کے علاوہ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ نمازوں کے لیے اقامت کہی گئی، پھر آپ نے اس طرح پڑھائیں جس طرح ان کے اوقات میں پڑھاتے تھے۔ (سنن النسائي، الأذان، حدیث:662) حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں بھی جماعت کا ذکر ہے۔ (مسند أحمد:375/1) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی نمازیں اس لیے فوت ہوئیں کہ ابھی صلاۃ خوف کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ (سنن النسائي، الأذان، حدیث:662)