مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5964.
حضرت مجاہد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم حضرت ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، لوگوں نے دجال کا ذکر کیا تو ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا۔ آپ نے مزید فرمایا: میں نے آپ ﷺ سے یہ نہیں سنا، البتہ آپ نے یہ ضرور فرمایا تھا: اگر تم حضرت ابراہیم ؑ کو دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے صاحب کو دیکھ لو، نیز حضرت موسیٰ ؑ گندمی رنگ کے تھے اور ان کے بال پیچ دار تھے، سرخ اونٹ پر سوار تھے جس کی مہار کھجور کے بالوں کی تھی، گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ وادی میں تلبیہ کہتے ہوئے اتر رہے ہیں۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیرت و صورت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسے تھے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ جس نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھنا ہو وہ مجھے دیکھ لے۔ (2) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بالوں کا وصف بیان ہوا ہے کہ وہ گھنگریالے بالوں والے تھے اور ان کا رنگ گندمی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گویا میں اب بھی انہیں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں، وہ سرخ اونٹ پر سوار تلبیہ کہتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں۔‘‘ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5689
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5913
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5913
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5913
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت مجاہد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم حضرت ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، لوگوں نے دجال کا ذکر کیا تو ابن عباس ؓ نے فرمایا: اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا۔ آپ نے مزید فرمایا: میں نے آپ ﷺ سے یہ نہیں سنا، البتہ آپ نے یہ ضرور فرمایا تھا: اگر تم حضرت ابراہیم ؑ کو دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے صاحب کو دیکھ لو، نیز حضرت موسیٰ ؑ گندمی رنگ کے تھے اور ان کے بال پیچ دار تھے، سرخ اونٹ پر سوار تھے جس کی مہار کھجور کے بالوں کی تھی، گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ وادی میں تلبیہ کہتے ہوئے اتر رہے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیرت و صورت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسے تھے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ جس نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھنا ہو وہ مجھے دیکھ لے۔ (2) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بالوں کا وصف بیان ہوا ہے کہ وہ گھنگریالے بالوں والے تھے اور ان کا رنگ گندمی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گویا میں اب بھی انہیں چشم تصور سے دیکھ رہا ہوں، وہ سرخ اونٹ پر سوار تلبیہ کہتے ہوئے وادی میں اتر رہے ہیں۔‘‘ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے اور ان سے مجاہد نے بیان کیا کہ ہم حضرت ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگوں نے دجال کا ذکر کیا اور کسی نے کہا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ ”کافر“ لکھا ہوگا۔ اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے میں نے تو نہیں سنا البتہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تمہیں حضرت ابراہیم ؑ کو دیکھنا ہو تو اپنے صاحب (خود آنحضرت ﷺ) کو دیکھو (کہ آپ بالکل ان کے ہم شکل ہیں) اور حضرت موسیٰ ؑ گندمی رنگ کے ہیں بال گھونگھریالے جیسے اس وقت بھی میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس نالے وادی ازرق نامی میں لبیک کہتے ہوئے اتر رہے ہیں ان کے سرخ اونٹ کی نکیل کی رسی کھجور کی چھال کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mujahid (RA) : We were with Ibn 'Abbas (RA) and the people mentioned Ad-Dajjal. Someone said, "The word 'Kafir' (unbeliever) is written in between his (Ad-Dajjal's) eyes." Ibn 'Abbas (RA) said, "I have not heard the Prophet (ﷺ) saying this, but he said, 'As regards Abraham, he looks like your companion (i.e. the Prophet, Muhammad), and as regards Moses (ؑ), he is a brown curly haired man riding a camel and reigned with a strong jute rope, as if lam now looking at him getting down in the valley and saying, "Labbaik".'"