تشریح:
(1) حضرت عکرمہ کے پاس اس بات کا ذکر ہوا کہ ایک سواری پر تین آدمیوں کا بیٹھنا انتہائی معیوب ہے تو انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل کا حوالہ دیا اور اس موقف کی تردید کی۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ سواری کے آگے بیٹھنے کا حق تو مالک کو ہے ہاں اگر وہ خود اس حق سے دستبردار ہو جائے تو کوئی دوسرا بھی آگے بیٹھ سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قثم یا حضرت فضل کو آگے بٹھایا تھا۔ اس حدیث سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے، ایک آدمی گدھے پر سوار وہاں سے گزرا تو اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ سوار ہو جائیں اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اس کے آگے بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہے ہاں، اگر تو اگلا حصہ میرے لیے خوشی سے مخصوص کر دے تو ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے کہا: میں نے آپ کے لیے کر دیا ہے تو آپ آگے سوار ہو گئے۔ (سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2572)
(3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مالک، اپنی سواری پر آگے بیٹھنے کا اس لیے زیادہ حق دار ہے کہ آگے بیٹھنا انسان کے لیے باعث شرف ہے اور وہ مالک ہونے کی حیثیت سے اس شرف کا زیادہ حق دار ہے، پھر اسے راستے کے نشیب و فراز کا علم ہوتا ہے اور جانور کب اور کیسے موڑنا ہے یہ تمام خدمات آگے بیٹھ کر ہی سر انجام دی جا سکتی ہیں۔ (فتح الباري: 10/488)