تشریح:
(1) اگر والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو تو ان کی خدمات کرنے میں بھر پور کوشش کی جائے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنے میں اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کی جائیں تو یہ خدمات دشمن سے قتال کرنے کے قائم مقام ہوں گی۔
(2) واضح رہے کہ اس جہاد سے مراد وہی جہاد ہے جو فرض کفایہ ہے کیونکہ فرض کفایہ دوسرے لوگوں کے ادا کرنے سے ادا ہو جاتا ہے لیکن والدین کی خدمت اس کے بغیر کوئی دوسرا نہیں کرے گا۔ اگر جہاد فرض عین ہو تو اس وقت والدین سے اجازت لینا ضروری نہیں، پھر دین اسلام کی سر بلندی کے لیے ہر چیز کو قربان کر دیا جائے۔