تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی جنت میں داخل ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد صلہ رحمی کرنے والے کے شامل حال رہتی ہے، چنانچہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے چند ایک رشتے دار ہیں میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں لیکن وہ اس رشتے کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہوں لیکن وہ اس کا بدتمیزی کے ساتھ بدلہ دیتے ہیں۔ میں ان کی زیادتی کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ بدسلوکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو صحیح کہتا ہے تو گویا ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہا ہے۔ جب تک تو اپنے عمل کو قائم رکھے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک مددگار ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث:6525(2558)
(2) اللہ تعالیٰ کے ہاں صلہ رحمی کا مطلوبہ معیار حسب ذیل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے: ’’کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں صلہ رحمی یہ ہے کہ جب اس سے رشتے داری توڑی جائے تو وہ اسے ملائے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:5991) رشتے داروں کے ساتھ معاملہ کرنے کے تین مراتب حسب ذیل ہیں:٭ صلہ رحمی: رشتے دار تعلقات ختم کر دیں تو ان سے میل ملاپ رکھے۔ ٭مکافات: رشتے دار اچھا سلوک کریں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ ٭قطع رحمی، اپنے رشتے داروں سے قطع تعلق کرے۔ یہ آخری مرتبہ انتہائی بدترین درجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔