تشریح:
(1) یہ حدیث پہلے (541) نماز عصر کا وقت بیان کرتے ہوئے ذکر ہوئی تھی۔ امام بخاری ؒ نے اس مقام پر نماز عشاء کے بعد قصہ گوئی کی کراہت بیان کرنے کے لیے اسے دوبارہ ذکر کیا ہے۔ عشاء کے بعد باتیں کرنے اور قصہ گوئی میں مصروف ہونے کی کراہت اس لیے ہے کہ مبادا نماز فجر قضا ہو جائے یا کم از کم وقت مختار نکل جائے، نیز قیام اللیل پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ حضرت عمر ؓ لوگوں کواس بات پر مارا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ شروع رات میں قصہ گوئی اور باتوں میں وقت خراب کرو گے تو رات کے آخری حصے میں نیند آئے گی۔ اس کے مفاسد محتاج بیان نہیں۔
(2) اگر اس بات کو کراہت کی علت قرار دیا جائے تو بڑی اور چھوٹی راتوں میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ دور اندیشی کے پیش نظر یہ ممانعت مطلق طور پر ہو، کیونکہ شریعت جب کسی چیز پر خرابی کے اندیشے سے کوئی حکم لگاتی ہے تو پھر وہ سختی سے قائم رہتی ہے، اس لیے شریعت نے نماز عشاء کے بعد مباح باتوں سے روک دیا ہے، کیونکہ حرام باتیں تو ہر وقت منع ہیں۔ (فتح الباري:97/2) تاہم ایسی باتیں جن میں دعوت و تبلیغ یا مسلمانوں کی فلاح و بہبود مقصود ہو، ان کے متعلق شریعت نرم گوشہ رکھتی ہے، جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا، لیکن وہ اس حد تک ہونی چاہیے کہ نماز فجر متاثر نہ ہو۔ اگر نماز فجر قضا ہونے یا وقت مختار نکل جانے کا اندیشہ ہوتو عشاء کے بعد خیرو برکت پر مشتمل باتوں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ والله أعلم.