قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ (بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ السَّمَرِ بَعْدَ العِشَاءِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: السَّمَرِ فِي الفِقْهِ وَالخَيْرِ بَعْدَ العِشَاءِ السامر والجمع السمار والسامر ﻫﻬﻨﺎ في موضع الجمع و اصل السمر ضؤلون القمر و کانوا يتحدثون فيه.

599. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو المِنْهَالِ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي إِلَى أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: حَدِّثْنَا كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي المَكْتُوبَةَ؟ قَالَ: كَانَ يُصَلِّي الهَجِيرَ - وَهِيَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الأُولَى - حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي العَصْرَ، ثُمَّ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى أَهْلِهِ فِي أَقْصَى المَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ - وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي المَغْرِبِ - قَالَ: وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ العِشَاءَ، قَالَ: وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا، وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلاَةِ الغَدَاةِ، حِينَ يَعْرِفُ أَحَدُنَا جَلِيسَهُ، وَيَقْرَأُ مِنَ السِّتِّينَ إِلَى المِائَةِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

سامرکا لفظ جو قرآن میں ہےسمر ہی سے نکلا ہے۔ اس کی جمع  سمار ہے اور لفظسامراس آیت میں جمع کے معنی میں ہے۔سمراصل میں چاند کی روشنی کو کہتے ہیں، اہل عرب چاندنی راتوں میں گپ شپ کیا کرتے تھے۔سورۂ مومنون میں یہ آیت ہے((مستکبیرین بہ سامراتھجرون))یعنی تم ہماری آیتوں پر اکڑ کےبے ہودہ بکواس کیا کرتے تھے حضرت امام بخاری کی یہ عادت ہے کہ حدیث میں کوئی لفظ قرآن مجید کا آجائےتو اس کی تفسیر بھی ساتھ ہی کر دیتے ہیں

599.

حضرت ابومنہال سیار بن سلامہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے والد گرامی کے ہمراہ حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ  کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے والد محترم نے ان سے عرض کیا: آپ بیان کریں کہ رسول اللہ ﷺ فرض نماز کس طرح پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: نماز ظہر جسے تم پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا تھا۔ اور نماز عصر اس وقت پڑھتے کہ جب ہمارا کوئی آدمی نماز پڑھ کر عوالی مدینہ میں اپنے گھر پہنچتا تو ابھی سورج خوب روشن ہوتا۔ راوی کہتا ہے کہ مغرب کے متعلق انہوں نے جو فرمایا میں اسے بھول گیا ہوں۔ صحابی کہتے ہیں کہ آپ عشاء کی نماز دیر سے پڑھنا پسند کرتے تھے، نیز عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد بات کرنے کو مکروہ خیال کرتے تھے۔ اور صبح کی نماز سے فراغت کے بعد آپ وقت میں لوٹتے جب ہم میں سے ہر ایک اپنے پاس والے ساتھی کو پہچان لیتا تھا اور آپ اس میں ساٹھ سے سو تک آیات پڑھا کرتے تھے۔