تشریح:
(1) ایک روایت میں وضاحت ہے کہ اس عورت کا بچہ گم ہوچکا تھا،اس لیے جب بھی کوئی بچہ دیکھتی اسے چھاتی سے لگا کر دودھ پلاتی،آخر اسے اپنا بچہ مل گیا تو اسے چھاتی سے لگا کر بہت خوش ہوئی۔اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ دودھ جمع ہونے سے اس کی چھاتی بوجھل ہوچکی تھی،جب بھی کوئی بچہ دیکھتی تو اپنی چھاتی کو ہلکا کرنے کے لیے اسے دودھ پلانا شروع کردیتی۔ (مسند احمد:3/104، وفتح الباري:530/10)
(2) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم کرے گا اور انھیں جہنم میں نہیں ڈالے گا، البتہ جو لوگ برے کام کر کے جہنم کے مستحق ہوں گے، انھیں ضرور جہنم کے حوالے کیا جائے گا، گویا وہ خود اپنے آپ کو دوزخ کے حوالے کرتے ہیں۔
(3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حدیث میں لفظ "عباد" اگرچہ عام ہے لیکن اس سے مراد اہل ایمان ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے اور اسے میں نے ان لوگوں کے لیے مقدر کیا ہے جو تقویٰ شعار اور پرہیز گار ہیںَ" (الأعراف7: 156) بہرحال انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لیے ہر وقت کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ (فتح الباري:530/10)