تشریح:
(1) اس سے معلوم ہوا کہ یتیم کی پرورش اور نگہداشت کرنے والے کا جنت میں بہت بلند درجہ ہوگا۔ واقعی یتیم کی خبر گیری کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن بطال کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جو انسان اس حدیث کو سنے اسے چاہیے کہ وہ اس پرعمل کرتے ہوئے کسی یتیم کی کفالت کرے تاکہ اسے جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت نصیب ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ نہیں ہے۔ ( فتح الباری:536/10)
(3)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمانوں میں بہترین گھر وہ ہے جس گھر میں کوئی یتیم (زیرِ کفالت) ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم (زیرِکفالت) ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔‘‘ ( سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث:3679) یتیم اپنی ضروریات کا مطالبہ اس طرح نہیں کر سکتا جس طرح بیٹا اپنے باپ سے ضد کر کے یا ناز کے ساتھ اپنی بات منوا لیتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ یتیم کی ضروریات اس کے مطالبے کے بغیر ہی پوری کی جائیں۔