تشریح:
پڑوسی کے اکرام کا حکم اشخاص، حالات اور مقام کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کا کم ازکم مرتبہ اچھے اخلاق سے پیش آنا ہے۔ حافط ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کی ہے، جس سے پڑوسی کے حقوق کا پتا چلتا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! ایک پڑوسی کے دوسرے پڑوسی پر کیا حقوق ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’جب وہ قرض طلب کرے تو اسے قرض دے۔ جب وہ مدد طلب کرے تو اس کا تعاون کرے۔ جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی تیماداری کرے۔ جب وہ ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت پوری کرے۔ جب وہ محتاج ہو تو اس کی خبر گیری کرے۔ جب اسے کوئی خوشی ملے تو اسے مبارک باد دے۔ اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو اسے تسلی دے۔ جب وہ فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ پڑھے، اس کے گھر سے اپنی دیواریں اونچی نہ کرے تاکہ قدرتی ہوا کی بندش نہ ہو (اس کی اجازت سے کیا جا سکتا ہے) جب گھر میں اچھا کھانا پکائے تو اسے بھی کچھ دے۔ اگر پھل خریدے تو اسے کچھ ہدیہ دے، اگر نہ دے سکے تو اسے پوشیدہ طورپر گھر میں لے جائے تاکہ اس کے بچوں کو تکلیف نہ ہو۔ اگر کوئی کوتاہی دیکھے تو پردہ پوشی سے کام لے۔ (فتح الباري:548/10، وسلسلة الأحادیث الضعیفة:96/6، رقم 2587) اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، تاہم معنی کے اعتبار سے صحیح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم