Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Al-Birr and As-Sila)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ پاک نے (سورۃ لقمان اور سورۃ احقاف میں) فرمایا ”ہم سے انسانوں کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم دیا ہے“۔
تشریح :قرآن مجید کی ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں عبادت الٰہی کے ساتھ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بعد بندوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے جنت کو والدین کے قدموں کے تلے بتایا گیا ہے اور والدین کو ستانا ، ان کی نا فرمانی کرنا، ان کی خدمت سے جی چرانا گناہ کبیرہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وصیت نامے میں جو آپ نے حضرت معاذ بن جبل ؓکو فرمایا تھا اور خاص طور پر حکم دیا تھا کہ ”ولا تعقن والدیک وان امراک ان تخرج من اھلک ومالک “ اور ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو اگر چہ وہ تم کو تمہارے اہل وعیال سے یا تمہارے مال سے تم کو جدا کریں
6023.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: اللہ عزوجل کے ہاں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بروقت نماز ادا کرنا“ پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔“ پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنا“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھے ان ہدایات سے مطلع کیا اگر میں اس طرح سوال کرتا رہتا تو آپ مجھے جواب دیتے رہتے۔
تشریح:
(1) دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا کھلانا بہترین عمل ہے یا محبوب عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے اگرچہ وہ قلیل ہو، روایات کا یہ اختلاف اوقات واحوال کے اختلاف یا حاضرین کے اعتبار سے ہے۔ (2) اس حدیث میں والدین سے حسن سلوک کو جہاد فی سبیل اللہ پر مقدم کیا ہے کیونکہ جہاد والدین کی اجازت پر موقوف ہے، یعنی والدین سے حسن سلوک کا تقاضا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی ان کی اجازت سے کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں شمولیت سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ مستقل عنوان قائم کریں گے اور اس کے لیے ایک حدیث لائیں گے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5746
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5970
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5970
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5970
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
انسان کو اگرچہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے لیکن اس کی پیدائش کا ذریعہ اس کے والدین کو ٹھہر ایا ہے،اس لیے اللہ تعالیٰ کے حق کے بعد سب سے بڑا حق اس کے والدین کا ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور یہ حق کسی دنیوی اختلاف تو درکنار ایمان وعقیدے کے اختلاف کی صورت میں بھی باقی رہتا ہے۔یہ بات آیت مذکورہ کے پس منظر سے معلوم ہوتی ہے،چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تو ان کی ماں نے قسم اٹھائی کہ وہ سعد رضی اللہ عنہ سے کبھی بات نہیں کرے گی اور جب تک وہ اپنا دین نہیں چھوڑدے گا۔نہ کچھ کھائے گی نہ پیے گی۔وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے والدین کی اطاعت کاحکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں اور تجھے اس بات کا حکم دے رہی ہوں،پھر تین دن تک اس نے کچھ نہ کھایا پیا اور نہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے گفتگو ہی کی۔تین دن کے بعد وہ بے ہوش ہوگئی تو ان کےدوسرے بیٹے نے انھیں پانی پلایا۔جب اسے ہوش آیا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق بددعا کرنے لگی۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔(صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ،حدیث: 6238(1748)بہرحال والدین کی اطاعت کی حد یہ ہے کہ وہ شرک اوراللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔اگر وہ شرک یا نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی لیکن حسن سلوک کا حق پھر بھی برقرار رہے گا۔حسن سلوک میں دوچیزیں ہیں:ایک سختی کے بجائے نرمی کی جائے،دوسری ان کی فرمانبرداری کی جائے،چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم نے شہادت دی ہے: "وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے والے تھے۔ان پر دباؤ ڈالنے والے اور ان کی نافرمان نہیں تھے۔"(مریم19: 14) ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کی شکر گزاری کے حق کو اپنی شکر گزاری کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: "میرے شکر گزار رہو اور والدین کی بھی شکر گزاری کرو۔"(لقمان31: 14)
اور اللہ پاک نے (سورۃ لقمان اور سورۃ احقاف میں) فرمایا ”ہم سے انسانوں کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم دیا ہے“۔
تشریح :قرآن مجید کی ایسی بہت سی آیات ہیں جن میں عبادت الٰہی کے ساتھ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بعد بندوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے جنت کو والدین کے قدموں کے تلے بتایا گیا ہے اور والدین کو ستانا ، ان کی نا فرمانی کرنا، ان کی خدمت سے جی چرانا گناہ کبیرہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وصیت نامے میں جو آپ نے حضرت معاذ بن جبل ؓکو فرمایا تھا اور خاص طور پر حکم دیا تھا کہ ”ولا تعقن والدیک وان امراک ان تخرج من اھلک ومالک “ اور ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو اگر چہ وہ تم کو تمہارے اہل وعیال سے یا تمہارے مال سے تم کو جدا کریں
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: اللہ عزوجل کے ہاں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بروقت نماز ادا کرنا“ پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔“ پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنا“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے مجھے ان ہدایات سے مطلع کیا اگر میں اس طرح سوال کرتا رہتا تو آپ مجھے جواب دیتے رہتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا کھلانا بہترین عمل ہے یا محبوب عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے اگرچہ وہ قلیل ہو، روایات کا یہ اختلاف اوقات واحوال کے اختلاف یا حاضرین کے اعتبار سے ہے۔ (2) اس حدیث میں والدین سے حسن سلوک کو جہاد فی سبیل اللہ پر مقدم کیا ہے کیونکہ جہاد والدین کی اجازت پر موقوف ہے، یعنی والدین سے حسن سلوک کا تقاضا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی ان کی اجازت سے کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں شمولیت سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ مستقل عنوان قائم کریں گے اور اس کے لیے ایک حدیث لائیں گے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیکی کی وصیت کی ہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید ہشام نے بیا ن کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے کہا کہ مجھے ولید بن عیزار نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابو عمرو شیبانی سے سنا، کہا کہ ہمیں اس گھر والے نے خبر دی اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کے گھر کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے بنی کریم ﷺ سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کو ن سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنا۔ پوچھا کہ پھر کون سا؟ فرمایا کہ والدین کے سا تھ اچھا سلوک کرنا، پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے ان کاموں کے متعلق بیان کیا اور اگر میں اسی طرح سوال کرتا رہتا تو آپ جواب دیتے رہتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Walid bin 'Aizar (RA) : I heard Abi Amr 'Ash-Shaibani saying, "The owner of this house." he pointed to 'Abdullah's house, "said, 'I asked the Prophet (ﷺ) 'Which deed is loved most by Allah?" He replied, 'To offer prayers at their early (very first) stated times.' " 'Abdullah asked, "What is the next (in goodness)?" The Prophet (ﷺ) said, "To be good and dutiful to one's parents," 'Abdullah asked, "What is the next (in goodness)?" The Prophet (ﷺ) said, To participate in Jihad for Allah's Cause." 'Abdullah added, "The Prophet (ﷺ) narrated to me these three things, and if I had asked more, he would have told me more."