Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: To be undutiful to parents is one of the greatest sins)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6030.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبائر کا ذکر کیا یا آپ سے کبائر کے متعلق پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟“ فرمایا: ”جھوٹی بات کرنا یا جھوٹی گواہی دینا۔“ سعبہ نے کہا : میرا غالب گمان ہے کہ آپ ﷺ نے ”جھوٹی گواہی دینا“ فرمایا تھا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات واشخاص کے پیش نظر مختلف گناہوں کو اکبر الکبائر قرار دیا ہے۔ مزکورہ احادیث میں والدین کی نافرمانی کو بھی بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ چونکہ والدین ظاہری صورت کے اعتبار سے بیٹے کے موجد ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کے حق کو بھی بیان کیا ہے اور ان کی حق تلفی کو اپنی حق تلفی کی طرح بڑا گناہ کہا ہے، چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا: والدین کا نافرمان، شراب کا رسیا اور دیوث (بےغیرت)۔‘‘ آپ نے دیوث کی تعریف فرمائی کہ جو ٹھنڈے پیٹ اپنے گھر میں بے حیائی اور بے غیرتی برداشت کرے۔ (مسند أحمد:128/2) (2) والدہ نے بچے کی پرورش میں زیادہ تکلیف اور مشقت برداشت کی ہوتی ہے اور وہ نرم دل ہونے کی وجہ سے اپنی اولاد پر زور نہیں دے سکتی، اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس کی نافرمانی سے منع فرمایا۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ نقد رقم دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ والدین کا حق ادا ہو گیا، یہ درست نہیں۔ اگر ان سے دور رہتا ہے تو فون پر ان سے رابطہ رکھنا، ان کی خیریت دریافت کرتے رہنا، ان سے ملاقات کے لیے جانا، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنا، اپنے معاملات میں ان سے مشورہ لینا، انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرنا یہ والدین کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا جسمانی ضروریات سے زیادہ اہم ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے اس کے والدین کو جنت یا جہنم قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث:3662) نیز فرمایا: ’’باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے چاہے اس دروازے کو ضائع کر لو چاہے اسے محفوظ رکھ لو۔‘‘ (جامع الترمذي، البروالصلة، حدیث:1900) اسے ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس کی نافرمانی کرو گے تو تمہارے لیے جنت کا دروزہ نہیں کھلے گا، اس طرح جنت کا دروزہ کھو بیٹھو گے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5753
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5977
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5977
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5977
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کی روایت کو متصل سند سے بیان کیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا،والدین کی نافرمانی کرنا،بلاوجہ کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا ہے۔"(صحیح البخاری، الایمان والنذور، حدیث:6675)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبائر کا ذکر کیا یا آپ سے کبائر کے متعلق پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟“ فرمایا: ”جھوٹی بات کرنا یا جھوٹی گواہی دینا۔“ سعبہ نے کہا : میرا غالب گمان ہے کہ آپ ﷺ نے ”جھوٹی گواہی دینا“ فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات واشخاص کے پیش نظر مختلف گناہوں کو اکبر الکبائر قرار دیا ہے۔ مزکورہ احادیث میں والدین کی نافرمانی کو بھی بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ چونکہ والدین ظاہری صورت کے اعتبار سے بیٹے کے موجد ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کے حق کو بھی بیان کیا ہے اور ان کی حق تلفی کو اپنی حق تلفی کی طرح بڑا گناہ کہا ہے، چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا: والدین کا نافرمان، شراب کا رسیا اور دیوث (بےغیرت)۔‘‘ آپ نے دیوث کی تعریف فرمائی کہ جو ٹھنڈے پیٹ اپنے گھر میں بے حیائی اور بے غیرتی برداشت کرے۔ (مسند أحمد:128/2) (2) والدہ نے بچے کی پرورش میں زیادہ تکلیف اور مشقت برداشت کی ہوتی ہے اور وہ نرم دل ہونے کی وجہ سے اپنی اولاد پر زور نہیں دے سکتی، اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس کی نافرمانی سے منع فرمایا۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ نقد رقم دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ والدین کا حق ادا ہو گیا، یہ درست نہیں۔ اگر ان سے دور رہتا ہے تو فون پر ان سے رابطہ رکھنا، ان کی خیریت دریافت کرتے رہنا، ان سے ملاقات کے لیے جانا، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنا، اپنے معاملات میں ان سے مشورہ لینا، انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرنا یہ والدین کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا جسمانی ضروریات سے زیادہ اہم ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے اس کے والدین کو جنت یا جہنم قرار دیا ہے۔ (سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث:3662) نیز فرمایا: ’’باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے چاہے اس دروازے کو ضائع کر لو چاہے اسے محفوظ رکھ لو۔‘‘ (جامع الترمذي، البروالصلة، حدیث:1900) اسے ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس کی نافرمانی کرو گے تو تمہارے لیے جنت کا دروزہ نہیں کھلے گا، اس طرح جنت کا دروزہ کھو بیٹھو گے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن ولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبائر کا ذکر کیا یا (انہوں نے کہا کہ) آنحضرت ﷺ سے کبائر کے متعلق پوچھا گیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، کسی کی (ناحق) جان لینا، والدین کی نافرمانی کرنا پھر فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ نہ بتا دوں؟ فرمایا کہ جھوٹی بات فرمایا کہ جھوٹی شہادت (سب سے بڑا گناہ ہے) شعبہ نے بیان کیا کہ میرا غالب گمان یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جھوٹی گواہی فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) mentioned the greatest sins or he was asked about the greatest sins. He said, "To join partners in worship with Allah; to kill a soul which Allah has forbidden to kill; and to be undutiful or unkind to one's parents." The Prophet (ﷺ) added, "Shall I inform you of the biggest of the great sins? That is the forged statement or the false witness." Shu'ba (the sub-narrator) states that most probably the Prophet (ﷺ) said, "the false witness."