باب: والد کافر یا مشرک ہو تب بھی اس کے ساتھ نیک سلوک کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: To be good to a father who is a Mushrik)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6031.
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں میری والدہ میرے پاس آئی اور وہ مجھ سے صلہ رحمی کی امید رکھتی تھی میں نے نبی ﷺ سے اس کے ساتھ صلہ رحمی کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”ہاں(صلہ رحمی کرو)“ ابن عینیہ نے کہا: اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی: ”اللہ تعالٰی تمہیں ان لوگوں سے حسن سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔“
تشریح:
(1) والدین کے اولاد پر دوحق ہیں: ایک اطاعت اور دوسرا حسن سلوک۔ اگر والدین شرک یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اولاد کو مجبور کریں تو ان کی اطاعت کا حق ختم ہو جاتا ہے لیکن حسن سلوک کا حق پھر بھی برقرار رہتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے،جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانو،البتہ دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو۔‘‘(لقمان31: 15) (2) حدیث میں ذکر کردہ آیت کریمہ غیر حربی کفار سے تعلقات رکھنے کے متعلق ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کہ اگر کافر، مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار نہیں۔ تو اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بہرحال والدین اگر مشرک ہوں تو صلہ رحمی کا حق ختم نہیں ہوتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5754
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5978
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5978
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5978
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں میری والدہ میرے پاس آئی اور وہ مجھ سے صلہ رحمی کی امید رکھتی تھی میں نے نبی ﷺ سے اس کے ساتھ صلہ رحمی کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”ہاں(صلہ رحمی کرو)“ ابن عینیہ نے کہا: اللہ تعالٰی نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی: ”اللہ تعالٰی تمہیں ان لوگوں سے حسن سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کی وجہ سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) والدین کے اولاد پر دوحق ہیں: ایک اطاعت اور دوسرا حسن سلوک۔ اگر والدین شرک یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اولاد کو مجبور کریں تو ان کی اطاعت کا حق ختم ہو جاتا ہے لیکن حسن سلوک کا حق پھر بھی برقرار رہتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک کرے،جس کا تجھے علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانو،البتہ دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو۔‘‘(لقمان31: 15) (2) حدیث میں ذکر کردہ آیت کریمہ غیر حربی کفار سے تعلقات رکھنے کے متعلق ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کہ اگر کافر، مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار نہیں۔ تو اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بہرحال والدین اگر مشرک ہوں تو صلہ رحمی کا حق ختم نہیں ہوتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی، انہیں اسماء بنت ابی بکر ؓ نے خبر دی کہ میری والدہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں میرے پاس آئیں، وہ اسلام سے منکر تھیں۔ میں نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی {لاَ يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ}یعنی اللہ پاک تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے ہمارے دین کے متعلق کوئی لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔
حدیث حاشیہ:
یہ قرآن پاک کی وہ زبر دست آیت کریمہ ہے۔ جو مسلمانوں اورغیر مسلمانوں کے باہمی تعلقات کو جوڑتی ہے اور باہمی جھگڑوں کو کالعدم قرار دیتی ہے۔ مسلمانوں کی جنگ جارحانہ نہیں بلکہ صرف مدافعانہ ہوتی ہے۔ صاف ارشاد باری ہے۔ {وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا} (الأنفال: 61) اگر تمہاے مخالفین تم سے بجائے جنگ کے صلح کے خواہاں ہوں تو تم بھی فوراً صلح کے لیے جھک جاؤ کیونکہ اللہ کے ہاں جنگ بہر حال نا پسند ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma' bint Abu Bakr (RA) : My mother came to me, hoping (for my favor) during the lifetime of the Prophet (ﷺ) asked the Prophet, "May I treat her kindly?" He replied, "Yes." Ibn 'Uyaina said, "Then Allah revealed: 'Allah forbids you not with regards to those who fought not against you because of religion, and drove you not out from your homes, that you should show them kindness and deal justly with them.'.......(60.8)