صحیح بخاری
78. کتاب: اخلاق کے بیان میں
14. باب: آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا ناطہ اگر قائم رکھ کر ترو تازہ رکھا جائے ( یعنی ناطہ کی رعایت کی جائے ) تو دوسرا بھی ناطہ کو ترو تازہ رکھے گا ۔
صحيح البخاري
78. كتاب الأدب
14. بَابُ تُبَلُّ الرَّحِمُ بِبَلاَلِهَا
Sahi-Bukhari
78. Good Manners and Form (Al-Adab)
14. Chapter: Ar-Rahm, i.e., womb (bond of kinship) remains fresh and fruitful if one looks after it always
باب: آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا ناطہ اگر قائم رکھ کر ترو تازہ رکھا جائے ( یعنی ناطہ کی رعایت کی جائے ) تو دوسرا بھی ناطہ کو ترو تازہ رکھے گا ۔
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Ar-Rahm, i.e., womb (bond of kinship) remains fresh and fruitful if one looks after it always)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6043.
حضرت عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے کسی قسم کی مداہنت کے بغیر علانیہ طور ہر یہ کہتے سنا: ”آل ابی (فلاں)۔ ۔ ۔ عمرو بن عباس نے کہا کہ محمد بن جعفر کی کتاب میں اس جگہ بیاض ہے۔ ۔ ۔ ۔ میرے دوست نہیں ہیں۔ میرا مددگار تو بس اللہ تعالٰی ہے اور نیک مومن بندے میرے دوست ہیں۔“ عنبسہ بن عبدالواحد نے عن بیان، عن قیس، عن عمرو بن العاص کے طریق سے یہ الفاظ مزید بیان کیے ہیں: لیکن ان سے میری قرابت ہے میں اسے رشتے اور قرابت کی تری سے تازہ رکھتا ہوں یعنی میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کی وجہ سے تعلق رکھوں گا ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ ) نے فرمایا: ''ببلاھا'' کے الفاظ اسی طرح مروی ہیں لیکن (ان کے بجائے) ببلا لھا کے الفاظ عمدہ اور صحیح ہیں کیونکہ ببلاھا کی کوئی معقول وجہ میں نہیں سمجھتا۔
تشریح:
(1) "بَلال" تری یا حلق میں تھوڑی سی مٹھاس کو کہا جاتا ہے۔ (2) عمرو بن عباس امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد ہیں، وہ کہتے ہیں کہ محمد بن جعفر کی کتاب میں آل ابی..... کے بعد خالی جگہ تھی۔ اس میں کسی نام کی تصریح نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بعض راویوں نے فتنے کے خوف سے اس مقام پر کنایہ کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیا ہو۔ (3) حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ میں کس کی قرابت کی وجہ سے اس سے دوستی نہیں کرتا بلکہ میری دوستی کی بنیاد للہیت ہے، اس بنا پر صرف اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان سے دوستی کا دم بھرتا ہوں۔ دوسرے الفاظ میں میری محبت ایمانی اور اصلاحی ہے لیکن میں رشتے داری کے حق کو پامال نہیں کرتا اور ان کے حق کا لحاظ رکھتے ہوئے میں ان کا بھر پور تعاون کرتا ہوں۔ (4) اس حدیث میں رحم کو اس زمین سے تشبیہ دی گئی ہے جو پانی سے تر ہو، جب وہ پوری طرح تر ہو تو پھل اور پیداوار دیتی ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو خشک ہو جائے گی اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ وصل کو بلل کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اتصال کو چاہتا ہے اور قطعیت کو یبس کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے انفصال ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ اقرباء پروری دونوں طرف سے ہونی چاہیے، اگر وہ اس کا خیال رکھیں گے تو میں بھی ان کا خیال رکھوں گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5766
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5990
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5990
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5990
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
حضرت عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے کسی قسم کی مداہنت کے بغیر علانیہ طور ہر یہ کہتے سنا: ”آل ابی (فلاں)۔ ۔ ۔ عمرو بن عباس نے کہا کہ محمد بن جعفر کی کتاب میں اس جگہ بیاض ہے۔ ۔ ۔ ۔ میرے دوست نہیں ہیں۔ میرا مددگار تو بس اللہ تعالٰی ہے اور نیک مومن بندے میرے دوست ہیں۔“ عنبسہ بن عبدالواحد نے عن بیان، عن قیس، عن عمرو بن العاص کے طریق سے یہ الفاظ مزید بیان کیے ہیں: لیکن ان سے میری قرابت ہے میں اسے رشتے اور قرابت کی تری سے تازہ رکھتا ہوں یعنی میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کی وجہ سے تعلق رکھوں گا ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ ) نے فرمایا: ''ببلاھا'' کے الفاظ اسی طرح مروی ہیں لیکن (ان کے بجائے) ببلا لھا کے الفاظ عمدہ اور صحیح ہیں کیونکہ ببلاھا کی کوئی معقول وجہ میں نہیں سمجھتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) "بَلال" تری یا حلق میں تھوڑی سی مٹھاس کو کہا جاتا ہے۔ (2) عمرو بن عباس امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد ہیں، وہ کہتے ہیں کہ محمد بن جعفر کی کتاب میں آل ابی..... کے بعد خالی جگہ تھی۔ اس میں کسی نام کی تصریح نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بعض راویوں نے فتنے کے خوف سے اس مقام پر کنایہ کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیا ہو۔ (3) حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ میں کس کی قرابت کی وجہ سے اس سے دوستی نہیں کرتا بلکہ میری دوستی کی بنیاد للہیت ہے، اس بنا پر صرف اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان سے دوستی کا دم بھرتا ہوں۔ دوسرے الفاظ میں میری محبت ایمانی اور اصلاحی ہے لیکن میں رشتے داری کے حق کو پامال نہیں کرتا اور ان کے حق کا لحاظ رکھتے ہوئے میں ان کا بھر پور تعاون کرتا ہوں۔ (4) اس حدیث میں رحم کو اس زمین سے تشبیہ دی گئی ہے جو پانی سے تر ہو، جب وہ پوری طرح تر ہو تو پھل اور پیداوار دیتی ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو خشک ہو جائے گی اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ وصل کو بلل کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اتصال کو چاہتا ہے اور قطعیت کو یبس کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے انفصال ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ اقرباء پروری دونوں طرف سے ہونی چاہیے، اگر وہ اس کا خیال رکھیں گے تو میں بھی ان کا خیال رکھوں گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عاص ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ فلاں کی اولاد (یعنی ابو سفیان بن حکم بن عاص یا ابو لہب کی) یہ عمرو بن عباس نے کہا کہ محمد بن جعفر کی کتاب میں اس وہم پر سفید جگہ خالی تھی (یعنی تحریر نہ تھی) میرے عزیز نہیں ہیں (گو ان سے نسبی رشتہ ہے) میرا ولی تو اللہ ہے اور میرے عزیز تو ولی ہیں جو مسلمانوں میں نیک اور پرہیز گار ہیں (گو ان سے نسبی رشتہ بھی نہ ہو) عنبسہ بن عبدالواحد نے بیان بن بشر سے، انہوں نے قیس سے، انہوں نے عمرو بن عاص سے اتنا بڑھایا ہے کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ البتہ ان سے میرا رشتہ ناطہ ہے اگر وہ تر رکھیں گے تو میں بھی تر رکھوں گا یعنی وہ ناطہ جوڑیں گے تو میں بھی جوڑوں گا۔
حدیث حاشیہ:
کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Al-'As (RA) : I heard the Prophet (ﷺ) saying openly not secretly, "The family of Abu so-and-so (i.e. Talib) are not among my protectors." 'Amr said that there was a blank space (1) in the Book of Muhammad bin Ja'far. He added, "My Protector is Allah and the righteous believing people." 'Amr bin Al-'As added: I heard the Prophet (ﷺ) saying, 'But they (that family) have kinship (Rahm) with me and I will be good and dutiful to them. "