تشریح:
(1) ان احادیث کے مطابق تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرنا اور میل جول چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ اگر کہیں ناراضی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی ختم کر لینا کسی صورت میں روا نہیں ہے۔ اگر مزید روابط بڑھانا خلاف مصلحت ہو تو سلام ودعا سے بخل کرنا درست نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کی اور اسی حالت میں مرگیا تو وہ آگ میں جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد:392/2، وإرواء الغلیل للألباني:92/7، رقم:2029) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ’’اگر تین دن قطع تعلقی پر گزر جائیں تو چاہیے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے ملے اور اسے سلام کہے۔ اگر وہ سلام کا جواب دے دے تو اجرو ثواب میں دونوں شریک ہو گئے۔اگر وہ جواب نہ دے تو اس کا گناہ اسی دوسرے پر ہے اور سلام کرنے والا قطع تعلقی کے گناہ سے نکل جاتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4219)
(2) واضح رہے کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی اس صورت میں ناجائز ہے جب دنیاوی مفادات اور ذاتی معاملات کے پیش نظر ہو اور اگریہ قطع تعلقی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتو قابل تعریف ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ عنوان میں بیان کیا ہے۔ واللہ أعلم