باب: خوش خلقی اور سخاوت کا بیان اور بخل کا برا و ناپسندیدہ ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Good character, generosity, and miserliness)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اوررمضان کے مہینے میں تو اور سب دنوں سے زیادہ سخاوت کرتے تھے ۔ جب ابو ذر غفاری ؓ کو حضور اکرم ﷺکی پیغمبری کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی انس سے کہا کہ وادی مکہ کی طرف جاؤ اور اس شخص کی باتیں سن کر آ ۔ جب وہ واپس آئے تو ابو ذر سے کہا کہ میں نے دیکھا کہ وہ صاحب تو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہیں ۔
6090.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں ”بردہ“ لے کر حاضر ہوئی۔ ۔ ۔ حضرت سہل ؓ نے اس وقت موجود لوگوں سے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ ”بردہ“ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا : ہاں بردہ کھلی چادر کو کہتے ہیں۔ حضرت سہل ؓ نے فرمایا : ہاں ”بردہ“ وہ لنگی جسکا حاشیہ بنا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں یہ لنگی آپ کے پہننے کے لیے لائی ہوں۔ نبی ﷺ نے وہ لنگی اس سے قبول کر لی۔ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ نے اسے ذیب تن فرمایا: صحابہ کرام ؓ میں سے ایک شخص نے وہ لنگی تو عرض کی: اللہ لے رسول! یہ بڑی عمدہ لنگی ہے۔ آپ یہ مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں تم لے لو“ جب نبی ﷺ تشریف لے گئے تو اس کے ساتھیوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا، جب تم نے دیکھ لیا تھا کہ رسول الل ﷺ نے اسے قبول فرمایا اور آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی اس کے باوجود تم نے وہ چادر آپ سے مانگ لی، حالانکہ تمہیں یہ بھی معلوم تھا کہ جب آپ سے کوئی چیز مانگی جاتی ہے تو آپ دینے سے انکار نہیں کرتے۔ اس صحابی نے کہا: میں تو صرف اس کی برکت کا امیدوار ہوں کیونکہ نبی ﷺ اسے ذیب تن کر چکے ہیں میری غرض یہ تھی کہ مجھے اس چادر میں کفن دیا جائے۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب وہ شخص فوت ہوا تو یہ چادر اس کا کفن تھی۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5810) (2) واضح رہے کہ سوال کرنے والے بزرگ صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ انھوں نے اس لنگی کا سوال اپنا کفن بنانے کے لیے کیا تھا، چنانچہ فوت ہونے کے بعد ان کی یہ خواہش پوری ہو گئی۔ (3) اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور آپ کے حسن خلق کا پتہ چلتا ہے۔ سخاوت کا یہ عالم ہے کہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود آپ نے سائل کو محروم نہیں کیا، حسن خلق اس قدر کہ آپ کی پیشانی پر شکن نہیں پڑے بلکہ خوش دلی اور خندہ پیشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر لپیٹ کر سائل کے حوالے کر دی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5813
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6036
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6036
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6036
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی اثر کو متصل سند سے بھی بیان کیا ہے، چنانچہ اسے کتاب بدء الوحی، حدیث:6 میں دیکھا جاسکتا ہے،اسی طرح حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے متعلقہ واقعہ بھی متصل سند سے ذکر کیا ہے۔(صحیح البخاری، المناقب، حدیث:3522)
عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اوررمضان کے مہینے میں تو اور سب دنوں سے زیادہ سخاوت کرتے تھے ۔ جب ابو ذر غفاری ؓ کو حضور اکرم ﷺکی پیغمبری کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے بھائی انس سے کہا کہ وادی مکہ کی طرف جاؤ اور اس شخص کی باتیں سن کر آ ۔ جب وہ واپس آئے تو ابو ذر سے کہا کہ میں نے دیکھا کہ وہ صاحب تو اچھے اخلاق کا حکم دیتے ہیں ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں ”بردہ“ لے کر حاضر ہوئی۔ ۔ ۔ حضرت سہل ؓ نے اس وقت موجود لوگوں سے کہا: تمہیں معلوم ہے کہ ”بردہ“ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا : ہاں بردہ کھلی چادر کو کہتے ہیں۔ حضرت سہل ؓ نے فرمایا : ہاں ”بردہ“ وہ لنگی جسکا حاشیہ بنا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں یہ لنگی آپ کے پہننے کے لیے لائی ہوں۔ نبی ﷺ نے وہ لنگی اس سے قبول کر لی۔ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ نے اسے ذیب تن فرمایا: صحابہ کرام ؓ میں سے ایک شخص نے وہ لنگی تو عرض کی: اللہ لے رسول! یہ بڑی عمدہ لنگی ہے۔ آپ یہ مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں تم لے لو“ جب نبی ﷺ تشریف لے گئے تو اس کے ساتھیوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا، جب تم نے دیکھ لیا تھا کہ رسول الل ﷺ نے اسے قبول فرمایا اور آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی اس کے باوجود تم نے وہ چادر آپ سے مانگ لی، حالانکہ تمہیں یہ بھی معلوم تھا کہ جب آپ سے کوئی چیز مانگی جاتی ہے تو آپ دینے سے انکار نہیں کرتے۔ اس صحابی نے کہا: میں تو صرف اس کی برکت کا امیدوار ہوں کیونکہ نبی ﷺ اسے ذیب تن کر چکے ہیں میری غرض یہ تھی کہ مجھے اس چادر میں کفن دیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب وہ شخص فوت ہوا تو یہ چادر اس کا کفن تھی۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5810) (2) واضح رہے کہ سوال کرنے والے بزرگ صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ انھوں نے اس لنگی کا سوال اپنا کفن بنانے کے لیے کیا تھا، چنانچہ فوت ہونے کے بعد ان کی یہ خواہش پوری ہو گئی۔ (3) اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور آپ کے حسن خلق کا پتہ چلتا ہے۔ سخاوت کا یہ عالم ہے کہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود آپ نے سائل کو محروم نہیں کیا، حسن خلق اس قدر کہ آپ کی پیشانی پر شکن نہیں پڑے بلکہ خوش دلی اور خندہ پیشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر لپیٹ کر سائل کے حوالے کر دی۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺتمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں آپ ﷺ بہت زیادہ سخاوت کرتے تھے
حضرت ابو ذر ؓ کہا: جب انہیں نبی ﷺکی بعثت کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ سوار ہوکر اس وادی کی طرف جاؤ اور ان کی باتیں سن کر آؤ، (چنانچہ وہ گیا)پھر واپس آکر کہا: میں نے انہیں دیکھا ہے وہ تو مکارم اخلاق کی تلقین کرتے ہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو غسان (محمد بن مطرف) نے بیان کیا کہ کہا مجھ سے ابو حازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ ایک خاتون نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ”بردہ“ لے کر آئیں پھر حضرت سہل نے موجود ہ لوگوں سے کہا تمہیں معلوم ہے، کہ بردہ کیا چیز ہے؟ لوگوں نے کہا کہ بردہ شملہ کو کہتے ہیں۔ سہل ؓ نے کہا کہ ہاں لنگی جس میں حاشیہ بنا ہوا ہوتا ہے تو اس خاتون نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں یہ لنگی آپ کے پہننے کے لئے لائی ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے وہ لنگی ان سے قبول کر لی۔ اس وقت آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی پھر آپ نے پہن لیا۔ صحابہ میں سے ایک صحابی عبدالرحمن بن عوف ؓ نے آنحضرت ﷺ کے بدن پروہ لنگی دیکھی تو عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بڑی عمدہ لنگی ہے، آپ مجھے اس کو عنایت فرما دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ لے لو، جب آنحضرت ﷺ وہاں سے اٹھ کر تشریف لے گئے تو اندر جا کر وہ لنگی بدل کر تہہ کر کے عبدالرحمن کو بھیج دی تو لوگوں نے ان صاحب کو ملامت سے کہا کہ تم نے آنحضرت ﷺ سے لنگی مانگ کر اچھا نہیں کیا، تم نے دیکھ لیا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے اسے اس طرح قبول کیا تھا گویا آپ کو اس کی ضرورت تھی۔ اس کے باوجود تم نے لنگی آنحضرت ﷺ سے مانگی، حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ آنحضرت ﷺ سے جب بھی کوئی چیز مانگی جاتی ہے تو آپ انکار نہیں کرتے۔ اس صحابی نے عرض کیا کہ میں تو صرف اس کی برکت کا امید وار ہوں کہ آنحضرت ﷺ اسے پہن چکے تھے میری غرض یہ تھی کہ میں اس لنگی میں کفن دیا جاؤں گا۔
حدیث حاشیہ:
یہ بہت بڑے رئیس التجار بزرگ صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف تھے، انہوں نے اس لنگی کا سوال اپنا کفن بنانے کے لئے کیا تھا، چنانچہ یہ اسی کفن میں دفن ہوئے۔ معلوم ہوا کہ جو سچے بزرگان دین باخدا ہوں ان کے ملبوسات سے اس طور پر برکت حاصل کرنا درست ہے۔ اللھم ارزقنا۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hazim (RA) : Sahl bin Sa'd said that a woman brought a Burda (sheet) to the Prophet. Sahl asked the people, "Do you know what is a Burda?" The people replied, "It is a 'Shamla', a sheet with a fringe." That woman said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have brought it so that you may wear it." So the Prophet (ﷺ) took it because he was in need of it and wore it. A man among his companions, seeing him wearing it, said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Please give it to me to wear." The Prophet (ﷺ) said, "Yes." (and gave him that sheet). When the Prophet (ﷺ) left, the man was blamed by his companions who said, "It was not nice on your part to ask the Prophet (ﷺ) for it while you know that he took it because he was in need of it, and you also know that he (the Prophet) never turns down anybody's request that he might be asked for." That man said, "I just wanted to have its blessings as the Prophet (ﷺ) had put it on, so l hoped that I might be shrouded in it."