Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Backbiting)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا ”اور تم میں بعض بعض کی غیبت نہ کرے کیا تم میں کوئی چاہتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ، تم اسے ناپسند کروگے اور اللہ سے ڈرو ، یقینا اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے ۔ “تشریح : غیبت یہ کہ پیٹھ پیچھے کسی بھائی کی ایسی عیب جوئی کرے جو اس کو نا گوار ہو یہ غیبت کرنا بدترین گناہ ہے قال ابن الاثیر فی النھایۃ الغیبۃ ان تذکر الانسان فی غیبتہ بسوءوان کان فیہ ( فتح )
6106.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس گزرے تو فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور (بظاہر) یہ کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب میں گرفتار نہیں ہیں بلکہ ایک اپنے پیشاب سے اجتناب نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا پھر آپ نے کھجور کی ایک تازہ شاخ منگوائی اور اسے چیر کردو ٹکڑے کر دیے اور ایک قبر پر ایک شاخ اور دوسری قبر پر دوسری شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔“
تشریح:
(1) احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کی تعریف مذکور ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟‘‘ صحابۂ کرام نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو۔‘‘ پوچھا گیا: اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہے جو میں کہہ رہا ہوں تو پھر؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر اس میں وہ بات پائی جائے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اس میں وہ بات موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔‘‘ ( صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث:6593(2589)) (2) یہ تو واضح بات ہے کہ بہتان غیبت سے بھی بڑا جرم ہے اور غیبت، خواہ زندہ انسان کی اس کی عدم موجودگی میں کی جائے یا کسی فوت شدہ انسان کی، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں۔ غیبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے کیونکہ غیبت کرنے والا اس کی غیرت پر حملہ آور ہوتا ہے جیسے اسے کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہو اور مردہ اس لیے فرمایا کہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہیں ہوتا۔ (3) اس حدیث میں بھی غیبت کی قباحت اور خرابی کو بیان کیا ہے اگرچہ عنوان میں غیبت کا ذکر ہے اور حدیث میں نمیمہ کا بیان ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ ناپسندیدہ بات عدم موجودگی میں کی جاتی ہے، اگرچہ بعض روایات میں غیبت کے الفاظ بھی مروی ہیں۔ (فتح الباري:577/10) ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے۔ میں نے پوچھا: ’’اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ انھوں نے بتایا یہ وہ ہیں جو دوسروں کا گوشت کھاتے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4878) (4)واضح رہے کہ اس حدیث میں بڑے گناہ سے مراد وہ جرائم ہیں جن کے ارتکاب پر حد مقرر ہے، جیسے: زنا اور چوری وغیرہ بصورت دیگر غیبت کرنا کوئی چھوٹا کام نہیں، البتہ اس پر کوئی شرعی حد لاگو نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5829
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6052
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6052
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6052
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
کسی کی عدم موجودگی میں ایسی بات کرنا جو اس میں پائی جاتی ہو اگر اس کے سامنے وہ بات کی جائے تو اسے ناگوار گزرے،اگر اس میں وہ نہ پائی جاتی ہو تو اسے بہتان کہتے ہیں جو اس سے بھی بڑھ کر جرم ہے۔غیبت اور نمیمہ میں فرق یہ ہے کہ کسی کی عدم موجودگی میں اس کی معیوب بات کرنا غیبت ہے اور بطور فساد کسی کا کلام نقل کرنا،نمیمہ کہلاتا ہے۔واضح رہے کہ نمیمہ غیبت ہی کی ایک قسم ہے۔غیبت اور چغلی کرنا انتہائی گھناؤنا جرم ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی قباحت بیان ہوگی۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا ”اور تم میں بعض بعض کی غیبت نہ کرے کیا تم میں کوئی چاہتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ، تم اسے ناپسند کروگے اور اللہ سے ڈرو ، یقینا اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے ۔ “تشریح : غیبت یہ کہ پیٹھ پیچھے کسی بھائی کی ایسی عیب جوئی کرے جو اس کو نا گوار ہو یہ غیبت کرنا بدترین گناہ ہے قال ابن الاثیر فی النھایۃ الغیبۃ ان تذکر الانسان فی غیبتہ بسوءوان کان فیہ ( فتح )
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس گزرے تو فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور (بظاہر) یہ کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب میں گرفتار نہیں ہیں بلکہ ایک اپنے پیشاب سے اجتناب نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا پھر آپ نے کھجور کی ایک تازہ شاخ منگوائی اور اسے چیر کردو ٹکڑے کر دیے اور ایک قبر پر ایک شاخ اور دوسری قبر پر دوسری شاخ گاڑ دی، پھر فرمایا: امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کی تعریف مذکور ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟‘‘ صحابۂ کرام نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو۔‘‘ پوچھا گیا: اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہے جو میں کہہ رہا ہوں تو پھر؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر اس میں وہ بات پائی جائے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اس میں وہ بات موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔‘‘ ( صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث:6593(2589)) (2) یہ تو واضح بات ہے کہ بہتان غیبت سے بھی بڑا جرم ہے اور غیبت، خواہ زندہ انسان کی اس کی عدم موجودگی میں کی جائے یا کسی فوت شدہ انسان کی، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں۔ غیبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے کیونکہ غیبت کرنے والا اس کی غیرت پر حملہ آور ہوتا ہے جیسے اسے کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہو اور مردہ اس لیے فرمایا کہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہیں ہوتا۔ (3) اس حدیث میں بھی غیبت کی قباحت اور خرابی کو بیان کیا ہے اگرچہ عنوان میں غیبت کا ذکر ہے اور حدیث میں نمیمہ کا بیان ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ ناپسندیدہ بات عدم موجودگی میں کی جاتی ہے، اگرچہ بعض روایات میں غیبت کے الفاظ بھی مروی ہیں۔ (فتح الباري:577/10) ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے۔ میں نے پوچھا: ’’اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ انھوں نے بتایا یہ وہ ہیں جو دوسروں کا گوشت کھاتے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4878) (4)واضح رہے کہ اس حدیث میں بڑے گناہ سے مراد وہ جرائم ہیں جن کے ارتکاب پر حد مقرر ہے، جیسے: زنا اور چوری وغیرہ بصورت دیگر غیبت کرنا کوئی چھوٹا کام نہیں، البتہ اس پر کوئی شرعی حد لاگو نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے
وضاحت: کسی کی عدم موجودگی میں ایسی بات کرنا جو اس میں پائی جاتی ہو اگر اس کے سامنے وہ بات کی جائے تو اسے ناگوار گزرے غیبت ہے اگر اس میں وہ نہ پائی جائے تو اسے بہتان کہتے ہیں جو اس سے بھی بڑھ کر جرم ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ بلخی نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے مجاہد سے سنا، وہ طاؤس سے بیان کرتے تھے اور وہ حضرت ابن عباس ؓ سے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا کہ ان دونوں قبروں کے مردوں کو عذاب ہو رہا ہے اور یہ کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب میں گرفتار نہیں ہیں بلکہ یہ (ایک قبر کا مردہ) اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا (یا پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا) اور یہ (دوسری قبر والا مردہ) چغل خور تھا، پھر آپ نے ایک ہری شاخ منگائی اور اسے دو ٹکڑوں میں پھاڑ کر دونوں قبروں پر گاڑ دیا اس کے بعد فرمایا کہ جب تک یہ شاخیں سوکھ نہ جائیں اس وقت تک شاید ان دونوں کا عذاب ہلکا رہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ ہری ٹہنی گاڑنے کا عمل آ پ کے ساتھ خاص تھا۔ اس لئے کہ آپ کو قبروں والوں کا صحیح حال معلوم ہو گیا تھا اور یہ معلوم ہونا بھی آپ ہی کے ساتھ خاص تھا۔ آج کوئی نہیں جان سکتا کہ قبر والا کس حال میں ہے، لہٰذا کوئی اگر ٹہنی گاڑے تو وہ بے کار ہے، واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) passed by two graves and said, "Both of them (persons in the grave) are being tortured, and they are not being tortured for a major sin. This one used not to save himself from being soiled with his urine, and the other used to go about with calumnies (among the people to rouse hostilities, e.g., one goes to a person and tells him that so-and-so says about him such-and-such evil things). The Prophet (ﷺ) then asked for a green leaf of a date-palm tree, split it into two pieces and planted one on each grave and said, "It is hoped that their punishment may be abated till those two pieces of the leaf get dried." (See Hadith No 215, Vol 1).