باب: مفسد اور شریر لوگوں کی یا جن پرگمان غالب برائی کا ہو ، ان کی غیبت درست ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Backbitings, wicked and suspicious people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6108.
ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ”اسے اندر آنے کی اجازت دے دو، یہ قبیلے کا برا بھائی یا برا بیٹا ہے“ جب وہ اندر آیا تو آپ ﷺ نے اس کے ساتھ بڑے اخلاق اور نرمی سے گفتگو فرمائی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے اس کے متعلق پہلے یہ فرمایا تھا پھر اس کے ساتھ بہت نرم گفتگو فرمائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! بے شک بد ترین آدمی وہ ہے جسے لوگ اس کی بد کلامی سے بچنے کے لیے چھوڑ دیں۔“
تشریح:
(1) یہ حقیقت تھی کہ وہ بُرا آدمی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے نہ تھے، آپ نے تو اپنی نیک عادت کے مطابق ہر برے بھلے آدمی سے نرم مزاجی اور اچھے اخلاق سے پیش آنا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کو اس کے متعلق آگاہ کرنے کے لیے آپ نے ایسا کیا تاکہ کوئی دوسرا اس کے دام فریب میں نہ پھنس جائے، لہٰذا یہ صورت غیبت سے مستثنیٰ ہوگی۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق درج ذیل صورتیں غیبت سے مستثنیٰ ہیں: ٭ مظلوم آدمی، حاکم کے سامنے ظالم کی غیبت کر کے اپنے ظلم کی فریاد کر سکتا ہے کیونکہ اس کے بغیر عدالتی نظام نہیں چل سکتا، اسی طرح فتویٰ لینے کے لیے مفتی کے سامنے بھی ظلم کی داستان بیان کی جا سکتی ہے۔ ٭کسی شخص کے شر سے بچنے کے لیے اپنے مومن بھائی کو اس کے عیب سے مطلع کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اگر کوئی شخص کسی سے رشتہ کرنا چاہتا ہو اور وہ دوسرے سے مشورہ لے تو اسے اس کے عیوب سے مطلع کرنا ضروری ہے۔ ٭محدثین کا قانونِ جرح وتعدیل، جس پر ذخیرۂ احادیث کی جانچ پڑتال کا انحصار ہے، اس صورت میں راویوں کے عیب بیان کرنا ممنوعہ غیبت میں شمار نہیں ہوگا، ایسا کرنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ ٭ ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں کو بیان کرنا جو فسق وفجور پھیلا رہے ہوں یا بدعات کی اشاعت کر رہے ہوں یا وہ لوگوں کے بے حیائی اور بےغیرتی میں مبتلا کر رہے ہوں، یہ تمام صورتیں غیبت میں شامل نہیں جس پر وعید آئی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5831
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6054
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6054
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6054
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: ”اسے اندر آنے کی اجازت دے دو، یہ قبیلے کا برا بھائی یا برا بیٹا ہے“ جب وہ اندر آیا تو آپ ﷺ نے اس کے ساتھ بڑے اخلاق اور نرمی سے گفتگو فرمائی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے اس کے متعلق پہلے یہ فرمایا تھا پھر اس کے ساتھ بہت نرم گفتگو فرمائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! بے شک بد ترین آدمی وہ ہے جسے لوگ اس کی بد کلامی سے بچنے کے لیے چھوڑ دیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حقیقت تھی کہ وہ بُرا آدمی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے نہ تھے، آپ نے تو اپنی نیک عادت کے مطابق ہر برے بھلے آدمی سے نرم مزاجی اور اچھے اخلاق سے پیش آنا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کو اس کے متعلق آگاہ کرنے کے لیے آپ نے ایسا کیا تاکہ کوئی دوسرا اس کے دام فریب میں نہ پھنس جائے، لہٰذا یہ صورت غیبت سے مستثنیٰ ہوگی۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق درج ذیل صورتیں غیبت سے مستثنیٰ ہیں: ٭ مظلوم آدمی، حاکم کے سامنے ظالم کی غیبت کر کے اپنے ظلم کی فریاد کر سکتا ہے کیونکہ اس کے بغیر عدالتی نظام نہیں چل سکتا، اسی طرح فتویٰ لینے کے لیے مفتی کے سامنے بھی ظلم کی داستان بیان کی جا سکتی ہے۔ ٭کسی شخص کے شر سے بچنے کے لیے اپنے مومن بھائی کو اس کے عیب سے مطلع کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اگر کوئی شخص کسی سے رشتہ کرنا چاہتا ہو اور وہ دوسرے سے مشورہ لے تو اسے اس کے عیوب سے مطلع کرنا ضروری ہے۔ ٭محدثین کا قانونِ جرح وتعدیل، جس پر ذخیرۂ احادیث کی جانچ پڑتال کا انحصار ہے، اس صورت میں راویوں کے عیب بیان کرنا ممنوعہ غیبت میں شمار نہیں ہوگا، ایسا کرنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ ٭ ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں کو بیان کرنا جو فسق وفجور پھیلا رہے ہوں یا بدعات کی اشاعت کر رہے ہوں یا وہ لوگوں کے بے حیائی اور بےغیرتی میں مبتلا کر رہے ہوں، یہ تمام صورتیں غیبت میں شامل نہیں جس پر وعید آئی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہوں نے محمد بن منکدر سے سنا، انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا اور انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ اسے اجازت دے دو، فلاں قبیلہ کا یہ برا آدمی ہے جب وہ شخص اندر آیا تو آپ نے اس کے ساتھ بڑی نرمی سے گفتگو کی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ کو اس کے متعلق جو کچھ کہنا تھا وہ ارشاد فرمایا اور پھر اس کے ساتھ نرم گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا، عائشہ! وہ آدمی ہے بد ترین جسے اس کی بد کلامی کے ڈر سے لوگ چھوڑ دیں۔
حدیث حاشیہ:
یہ حقیقت تھی کہ وہ برا آدمی ہے مگر میں تو برا نہیں ہوں مجھے تو اپنے نیک عادت کے مطابق ہر برے بھلے آدمی کے ساتھ نیک خو، ہی برتنی ہوگی۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : A man asked permission to enter upon Allah's Apostle. The Prophet (ﷺ) said, "Admit him. What an evil brother of his people or a son of his people." But when the man entered, the Prophet (ﷺ) spoke to him in a very polite manner. (And when that person left) I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! You had said what you had said, yet you spoke to him in a very polite manner?" The Prophet (ﷺ) said, "O 'Aisha! The worst people are those whom the people desert or leave in order to save themselves from their dirty language or from their transgression."