تشریح:
(1) دور جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر کوئی عہد شکنی کرتا تو اسے ذلیل و خوار کرنے کے لیے بھرے مجمع میں اس کے پاس ایک جھنڈا گاڑا جاتا تھا تاکہ لوگوں کے ہاں اس کی پہچان ہو جائے اور وہ اس قسم کی غداری اور عہد شکنی سے احتراز کریں۔
(2) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے لفظ ''فلاں بن فلاں'' سے ثابت کیا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارا جائے گا، اس لیے اس سلسلے میں ایک واضح حدیث بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''قیامت کے دن تمہیں تمہارے ناموں اور تمہارے باپ کے ناموں سے بلایا جائے گا، لہذا تم اچھے نام رکھا کرو۔'' (سنن أبي داود، الأدب، حدیث:4849) چونکہ یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انہوں نے اسے نظرانداز کر دیا ہے۔
(3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: آباء سے مراد وہ ہیں جن کی طرف وہ دنیا میں منسوب ہوتے تھے، حقیقی باپ مراد نہیں ہے۔ (فتح الباري:10/691)