باب: نبی کریم ﷺ کا فرمان کہ آسانی کرو ، سختی نہ کرو ، آپ ﷺ لوگوں پر تخفیف اور آسانی کو پسند فرمایا کرتے تھے
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: "Make things easy for the people and do not make things difficult for them.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
آپ ﷺلوگوں پر تخفیف اور آسانی کو پسند فرمایا کرتے تھےاللہ پاک ہمارے علماءاور فقہاءکو بھی اس اسوئہ نبوی پر عمل در آمد کی توفیق بخشے جنہوں نے ملت اسلام کو مختلف فرقوں میں تقسیم کرکے امت کو بہت سی مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے۔
6181.
حضرت ازرق بن قیس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم اہواز شہر کے کنارے پر تھے جو خشک پڑی تھی۔ وہاں حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور نماز پڑھنے لگے اور گھوڑے کو چھوڑ دیا۔ گھوڑا بھاگنے لگا تو انہوں نے نماز توڑ دی اور اس کا پیچھا کیا حتیٰ کہ اس کا پکڑ لیا، پھر واپس آئے اور نماز ادا کی۔ ہم میں سے ایک آدمی تھا جو خارجیوں کا عقیدہ رکھتا تھا وہ آیا اور کہنے لگا: اس بوڑھے کو دیکھو، اس نے گھورے کی وجہ سے نماز چھوڑ دی۔ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ سے جدا ہوں کسی نے مجھےسخت بات نہیں کی۔ مزید فرمایا کہ میرا گھر دور ہے۔ اگر میں نماز پڑھتا رہتا اور گھوڑے کو چھوڑ دیتا تو اپنے گھر رات تک بھی نہ پہنچ پاتا۔ اور کہا کہ میں نبی ﷺ کی صحبت میں رہا ہوں میں نے آپ ﷺ کو آسانی کی صورت اختیار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دوران نماز میں کسی کی سواری بھاگ جائے تو نماز چھوڑ کر اس کا پیچھا کر سکتا ہے، اسی طرح اگر دوران نماز میں اپنا مال ضائع ہوتا دیکھے تو نماز ترک کر کے اس کی حفاظت کر سکتا ہے، حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آسان صورت کو اختیار فرماتے خواہ مخواہ مشقت میں نہ پڑتے تھے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے قائم کردہ عنوان ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آسانی کو پسند کرتے تھے اور جو لوگ دینی معاملات میں سختی کرتے ہیں، ان کا کردار کسی صورت بھی قابل تحسین نہیں ہے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5901
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6127
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6127
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6127
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پیش کیا جو اس ارشاد باری تعالیٰ سے ماخوذ ہے: ''اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے وہ تمہارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔'' (البقرہ2: 185)
آپ ﷺلوگوں پر تخفیف اور آسانی کو پسند فرمایا کرتے تھےاللہ پاک ہمارے علماءاور فقہاءکو بھی اس اسوئہ نبوی پر عمل در آمد کی توفیق بخشے جنہوں نے ملت اسلام کو مختلف فرقوں میں تقسیم کرکے امت کو بہت سی مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ازرق بن قیس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم اہواز شہر کے کنارے پر تھے جو خشک پڑی تھی۔ وہاں حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور نماز پڑھنے لگے اور گھوڑے کو چھوڑ دیا۔ گھوڑا بھاگنے لگا تو انہوں نے نماز توڑ دی اور اس کا پیچھا کیا حتیٰ کہ اس کا پکڑ لیا، پھر واپس آئے اور نماز ادا کی۔ ہم میں سے ایک آدمی تھا جو خارجیوں کا عقیدہ رکھتا تھا وہ آیا اور کہنے لگا: اس بوڑھے کو دیکھو، اس نے گھورے کی وجہ سے نماز چھوڑ دی۔ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ سے جدا ہوں کسی نے مجھےسخت بات نہیں کی۔ مزید فرمایا کہ میرا گھر دور ہے۔ اگر میں نماز پڑھتا رہتا اور گھوڑے کو چھوڑ دیتا تو اپنے گھر رات تک بھی نہ پہنچ پاتا۔ اور کہا کہ میں نبی ﷺ کی صحبت میں رہا ہوں میں نے آپ ﷺ کو آسانی کی صورت اختیار کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دوران نماز میں کسی کی سواری بھاگ جائے تو نماز چھوڑ کر اس کا پیچھا کر سکتا ہے، اسی طرح اگر دوران نماز میں اپنا مال ضائع ہوتا دیکھے تو نماز ترک کر کے اس کی حفاظت کر سکتا ہے، حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آسان صورت کو اختیار فرماتے خواہ مخواہ مشقت میں نہ پڑتے تھے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے قائم کردہ عنوان ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آسانی کو پسند کرتے تھے اور جو لوگ دینی معاملات میں سختی کرتے ہیں، ان کا کردار کسی صورت بھی قابل تحسین نہیں ہے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
آپ ﷺلوگوں پر تخفیف اور آسانی کو پسند فرماتے تھے
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو النعمان بن محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے حمادبن زید نے بیان کیا، ان سے ازرق بن قیس نے کہ اہواز نامی ایرانی شہر میں ہم ایک نہر کے کنارے تھے جو خشک پڑی تھی، پھر ابو برزہ اسلمی صحابی گھوڑے پر تشریف لائے اور نماز پڑھی اور گھوڑا چھوڑ دیا۔ گھوڑا بھاگنے لگا تو آپ نے نماز توڑ دی اوراس کا پیچھا کیا، آخر اس کے قریب پہنچے اوراسے پکڑ لیا۔ پھر واپس آ کر نماز قضا کی، وہاں ایک شخص خارجی تھا، وہ کہنے لگا کہ اس بوڑھے کو دیکھو اس نے گھوڑے کے لئے نماز توڑ ڈالی۔ ابوبرزہ اسلمی ؓ نماز سے فارغ ہو کر آئے اور کہا جب سے میں رسول اللہ ﷺ سے جدا ہوا ہوں، کسی نے مجھ کو ملامت نہیں کی اور انہوں نے کہا کہ میرا گھر یہاں سے دور ہے، اگر میں نماز پڑھتا رہتا اور گھوڑے کو بھاگنے دیتا تو اپنے گھر رات تک بھی نہ پہنچ پاتا اور انہوں نے بیان کیا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں اور میں نے آنحضرت ﷺ کو آسان صورتوں کو اختیار کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Azraq bin Qais (RA) : We were in the city of Al-Ahwaz on the bank of a river which had dried up. Then Abu Barza Al-Aslami came riding a horse and he started praying and let his horse loose. The horse ran away, so Abu Barza interrupted his prayer and went after the horse till he caught it and brought it, and then he offered his prayer. There was a man amongst us who was (from the Khawari) having a different opinion. He came saying. "Look at this old man! He left his prayer because of a horse." On that Abu Barza came to us and said, "Since the time I left Allah's Apostle, nobody has admonished me; My house is very far from this place, and if I had carried on praying and left my horse, I could not have reached my house till night." Then Abu Barza mentioned that he had been in the company of the Prophet, and that he had seen his leniency.