Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: To prepare the meals for the guest)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6194.
حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حضرت سلمان اور حضرت ابو درداء ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سلمان ؓ حضرت ابو درداء کی ملاقات کے لیے تشریف لائے تو حضرت ام درداء ؓ کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا۔ حضرت سلمان ؓ نے پوچھا: تمہارا یہ حال کیوں ہے؟ حضرت ام درداء ؓ نے پوچھا: تمہارے بھائی ابو درداء ؓ کو تو دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں اتنے میں حضرت ابو درداء ؓ بھی آ گئے اور حضرت سلمان ؓ کے لیے کھانا تیار کیا اور کہا: آپ کھائیں میں تو روزے سے ہوں۔ حضرت سلمان ؓ نے جواب دیا: میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک آپ بھی نہ کھائیں چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ نماز کی تیاری کے لیے اٹھے۔ حضرت سلمان ؓ نے ان سے کہا: سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے۔ پھر جب آخر رات ہوئی تو حضرت سلمان ؓ نے کہا: تمہارے رب کا تم حق ہے۔ تیرا اپنا بھی تجھ پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم حق ہے اس لیے حق داروں کے حقوق ادا کرو۔ پھر حضرت ابو درداء ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ اس واقعے کا ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا : ”سلمان نے سچ کہا ہے۔“ ابو حجیفہ کا نام وہب السوائی ہے انہیں وہب الخیر بھی کہا جاتا ہے۔
تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاطعمۃ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا: (باب الرجل يتكلف الطعام لإخوانه) ’’آدمی اپنے بھائیوں کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة، باب:34) وہاں بھی یہ مسئلہ بیان کیا تھا کہ انسان کو اپنے مہمان کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرنا چاہیے۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے لیے خود کھانا تیار کیا تاکہ ان کی میزبانی میں کوئی کمی نہ رہ جائے کیونکہ مہمانوں کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرنا حضرات انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کے لیے موٹا تازہ بچھڑا ذبح کیا، پھر خود ہی بھون کر لائے اور مہمانوں کو پیش کیا جیسا کہ قرآن کریم میں صراحت ہے لیکن یہ تکلف اپنی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمت سے بڑھ کر تکلف کرنے کی ممانعت ہے جیسا کہ ایک روایت ہے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مہمانوں سے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کے لیے تکلف کرنے سے منع کیا ہے تو میں تمہارے لیے ضرور تکلف کرتا۔ (مسند أحمد:5/441) بہرحال اعتدال میں رہتے ہوئے میزبانی کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5914
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6139
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6139
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6139
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
حضرت ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حضرت سلمان اور حضرت ابو درداء ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سلمان ؓ حضرت ابو درداء کی ملاقات کے لیے تشریف لائے تو حضرت ام درداء ؓ کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا۔ حضرت سلمان ؓ نے پوچھا: تمہارا یہ حال کیوں ہے؟ حضرت ام درداء ؓ نے پوچھا: تمہارے بھائی ابو درداء ؓ کو تو دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں اتنے میں حضرت ابو درداء ؓ بھی آ گئے اور حضرت سلمان ؓ کے لیے کھانا تیار کیا اور کہا: آپ کھائیں میں تو روزے سے ہوں۔ حضرت سلمان ؓ نے جواب دیا: میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک آپ بھی نہ کھائیں چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ نماز کی تیاری کے لیے اٹھے۔ حضرت سلمان ؓ نے ان سے کہا: سو جاؤ، چنانچہ وہ سو گئے۔ پھر جب آخر رات ہوئی تو حضرت سلمان ؓ نے کہا: تمہارے رب کا تم حق ہے۔ تیرا اپنا بھی تجھ پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم حق ہے اس لیے حق داروں کے حقوق ادا کرو۔ پھر حضرت ابو درداء ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ اس واقعے کا ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا : ”سلمان نے سچ کہا ہے۔“ ابو حجیفہ کا نام وہب السوائی ہے انہیں وہب الخیر بھی کہا جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاطعمۃ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا: (باب الرجل يتكلف الطعام لإخوانه) ’’آدمی اپنے بھائیوں کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة، باب:34) وہاں بھی یہ مسئلہ بیان کیا تھا کہ انسان کو اپنے مہمان کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرنا چاہیے۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے لیے خود کھانا تیار کیا تاکہ ان کی میزبانی میں کوئی کمی نہ رہ جائے کیونکہ مہمانوں کے لیے پرتکلف کھانا تیار کرنا حضرات انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مہمانوں کے لیے موٹا تازہ بچھڑا ذبح کیا، پھر خود ہی بھون کر لائے اور مہمانوں کو پیش کیا جیسا کہ قرآن کریم میں صراحت ہے لیکن یہ تکلف اپنی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمت سے بڑھ کر تکلف کرنے کی ممانعت ہے جیسا کہ ایک روایت ہے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنے مہمانوں سے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کے لیے تکلف کرنے سے منع کیا ہے تو میں تمہارے لیے ضرور تکلف کرتا۔ (مسند أحمد:5/441) بہرحال اعتدال میں رہتے ہوئے میزبانی کا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے جعفر بن عون نے بیان کیا، کہا ہم ابو العمیس (عتبہ بن عبداللہ) نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی جحیفہ نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے سلمان فارسی اور ابو درداءؓ کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک مرتبہ سلمان ابو درداءؓ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور ام درداءؓ کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا اور پوچھا کیا حال ہے؟ وہ بولیں تمہارے بھائی ابو درداء کو دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ پھر ابو درداء تشریف لائے تو سلمان ؓ نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کھایئے، میں روزے سے ہوں۔ سلمان فارسی ؓ بولے کہ میں اس وقت تک نہیں کھاؤں گا۔ جب تک آپ بھی نہ کھائیں۔ چنانچہ ابو درداء نے بھی کھایا رات ہوئی تو ابو درداء ؓ نماز پڑھنے کی تیاری کرنے لگے۔ سلمان نے کہاکہ سو جایئے، پھر جب آخر رات ہوئی تو ابو درداء نے کہا اب اٹھئے، بیان کیا کہ پھر دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان ؓ نے کہا کہ بلا شبہ تمہارے رب کا تم پر حق ہے اور تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، پس سارے حق داروں کے حقوق ادا کرو ۔ پھر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا ہے۔ ابو جحیفہ کا نام وہب السوائی ہے، جسے وہب الخیر بھی کہتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
عورت بے چاری میلی کچیلی بیٹھی ہوئی تھی، حضرت سلمان کے پوچھنے پر اسے کہنا پڑا کہ میرے خاوند جب مجھ سے مخاطب ہی نہیں ہوتے تو میں بناؤ سنگار کر کے کیا کروں۔ آخر حضرت سلمان کے سمجھانے سے ابو درداء رضی اللہ عنہ نے اپنی حالت کو بدلا۔ روایت میں حضرت سلمان کے لئے کھانا تیار کرنے کا ذکر ہے باب سے یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Juhaifa (RA) : The Prophet (ﷺ) established a bond of brotherhood between Salman and Abu Darda'. Salman paid a visit to Abu ad-Darda and found Um Ad-Darda' dressed in shabby clothes and asked her why she was in that state.?" She replied, "Your brother, Abu Ad-Darda is not interested in the luxuries of this world." In the meantime Abu Ad-Darda came and prepared a meal for him (Salman), and said to him, "(Please) eat for I am fasting." Salman said, "I am not going to eat, unless you eat." So Abu Ad-Darda' ate. When it was night, Abu Ad-Darda' got up (for the night prayer). Salman said (to him), "Sleep," and he slept. Again Abu-Ad-Darda' got up (for the prayer), and Salman said (to him), "Sleep." When it was the last part of the night, Salman said to him, "Get up now (for the prayer)." So both of them offered their prayers and Salman said to Abu Ad-Darda',"Your Lord has a right on you; and your soul has a right on you; and your family has a right on you; so you should give the rights of all those who have a right on you). Later on Abu Ad-Darda' visited the Prophet (ﷺ) and mentioned that to him. The Prophet, said, "Salman has spoken the truth."