تشریح:
(1) ابو عمیر رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ابو عمیر کی کنیت سے پکارتے۔ اس کے معنی ہیں: عمیر کا باپ، حالانکہ وہ ابھی خود بچے تھے اور عمیر نامی ان کا کوئی بچہ نہ تھا۔ اس سے بچے کی کنیت رکھنا ثابت ہوا۔
(2) جب چھوٹے بچے کی کنیت رکھنا جائز ہے تو کسی آدمی کی اولاد ہونے سے پہلے اس کی کنیت رکھنا بالاولیٰ جائز ہوا۔ عربوں کے ہاں بچوں کی اور قبل از لوگوں کی کنیت رکھنے کا عام دستور تھا۔ بچوں کی کنیت نیک فال کے طور پر رکھی جاتی کہ یہ بچہ جوان ہو اور صاحب اولاد ہو۔ بہرحال بچوں اور اولاد پیدا ہونے سے پہلے لوگوں کی کنیت رکھنا جائز ہے، چنانچہ حضرت ہلال کہتے ہیں کہ حضرت عروہ بن زبیر نے میری کنیت رکھ دی تھی، حالانکہ میں صاحب اولاد نہ تھا۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1390)