تشریح:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو عملی طور پر ایک غیر محرم عورت کو دیکھنے سے منع فرمایا۔ بہرحال اہل ایمان کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ نظر بازی کے زہریلے اور خطرناک فتنے سے محفوظ رہیں۔
(2) اس حدیث سے کچھ اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ ضروری نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو پردہ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری طرف پھیرا ہے۔ اگر چہرے کا پردہ واجب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چہرہ ڈھانپنے کا ضرور حکم دیتے جیسا کہ شارح صحیح بخاری ابن بطال کے انداز سے معلوم ہوتا ہے۔ (فتح الباري:11/14) لیکن یہ موقف عقلی اور نقلی لحاظ سے محل نظر ہے کیونکہ عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لیے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہے۔ اگر چہرے ہی کو حجاب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو پھر حجاب کے دوسرے احکام کا کیا فائدہ ہے؟ اور نقلی لحاظ سے اس لیے غلط ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل اس توجیہ کے خلاف ہے، چنانچہ واقعۂ افک سے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان حسب ذیل ہے: ’’میں اسی جگہ بیٹھی رہی۔ اتنے میں میری آنکھ لگ گئی۔ اچانک ایک آدمی صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ اس مقام پر آیا اور دیکھا کہ کوئی سو رہا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی إنا لله و إنا إليه راجعون پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے فوراً اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4141) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو پردے کے معاملے میں اس قدر سخت تھیں کہ حالت احرام میں بھی اجنبی لوگوں سے اپنا چہرہ چھپا لیتی تھیں، چنانچہ بیان کرتی ہیں کہ مردوں کے قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالتِ احرام میں ہوتی تھیں۔ جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم اپنے سروں پر سے اوڑھنیاں اپنے چہروں پر گرا لیتی تھیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم پھر چہروں کو کھول لیتی تھیں۔ (مسند أحمد:30/6) اس حدیث پر امام ابو داود رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب في المحرمة تغطي وجهها) ’’عورت حالت احرام میں اپنے چہرے کو ڈھانپے۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسك، باب:33) امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں عنوان قائم کیا ہے: (باب المحرمة تسدل الثوب علي وجهها) ’’محرمہ عورت بھی اپنے چہرے پر کپڑا لٹکائے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، المناسك، باب:23) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح کا بیان مروی ہے کہ ہم حالت احرام میں اجنبی لوگوں سے چہرہ ڈھانپ لیتی تھیں۔ (سنن الدار قطني:295/2، الحج، حدیث:263) حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ حالت احرام میں اجنبی مردوں سے اپنے چہرے کو چھپاتی تھیں۔ (المستدرك للحاکم:454/1) قرآن کریم نے ایک پیغمبر زادی کے متعلق فرمایا ہے: ’’ان دنوں میں سے ایک باحیا طریقے سے چلتی ہوئی آئی۔‘‘ (القصص22: 25) باحیا طریقے سے چلنے کی کیفیت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ چہرے پر رکھے ہوئے آئی تھی۔ (المستدرك للحاکم:441/2)
(3) اس سلسلے میں قرآن کریم کی ایک واضح نص ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور ایمانداروں کی خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے۔‘‘ (الأحزاب33: 59) اس آیت کریمہ میں تمام اہل ایمان خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ باہر نکلتے وقت اپنی چادریں اپنے سر کے اوپر سے نیچے لٹکا لیا کریں، یعنی گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ لغوی اعتبار سے اس آیت کے یہی معنی ہیں کیونکہ ''أدنیٰ'' کے لغوی معنی ہیں: قریب کرنا، جھکانا اور لٹکانا ہے۔ جب اس کے بعد ''عَلٰی'' آ جائے تو اس کے معنی ارخاء، یعنی اوپر سے نیچے لٹکانے کے لیے مختص ہو جاتا ہے اور جب نیچے لٹکانا معنی ہوں تو اس کا مطلب سر سے نیچے لٹکانا ہو گا جس میں چہرے کا پردہ خود بخود آ جاتا ہے۔
(4) مذکورہ حدیث سے چہرے کے پردے کا عدم وجوب ثابت کرنا اس لیے محل نظر ہے کہ خثعمیہ عورت کا چہرہ نہ چھپانا کسی ضرورت و افادیت کی بنا پر تھا جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک حدیث کے حوالے سے اس کی وضاحت کی ہے، وہ لکھتے ہیں: ''فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک ایک دیہاتی سامنے آیا جس کے ساتھ اس کی خوبصورت لڑکی تھی اور وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیش کرنا چاہتا تھا تاکہ آپ اس سے نکاح کر لیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گفتگو سنیں اور اسے خود دیکھ لیں۔ (فتح الباري:89/4) ایسی ضرورت و افادیت کے لیے عورت کا چہرہ ننگا کرنا جائز ہے۔ چونکہ حضرت فضل رضی اللہ عنہ کا دیکھنا جائز نہ تھا، اس لیے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر منع کر دیا۔ واللہ أعلم
(5) ستر و حجاب کے سلسلے میں چند استثنائی صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ اتفاقات: یہ کئی طرح کے ہو سکتے ہیں، مثلاً: (ا) راستے میں مرد وغیرہ نہ ہونے کی صورت میں عورت کا پردہ اٹھا لینا، پھر اتفاقاً کسی مرد کا سامنے آ جانا۔ (ب) ہوا کے جھونکے سے عورت کا کپڑا اڑ جانا اور اس کی زینت یا چہرے کا ننگا ہو جانا۔ (ج) چھت پر چڑھتے وقت اچانک کسی دوسرے گھر کے صحن میں نظر پڑ جانا۔ ایسے حالات میں اتفاقاً پہلی نظر معاف ہے۔ اس کے بعد دوسری نظر قابل گرفت ہے۔ ٭ افادیت: کسی افادیت کے پیش نظر عورت کا چہرہ ننگا کرنا جائز ہے، مثلاً: منگنی سے پیشتر، ہونے والے میاں بیوی کو ایک نظر دیکھ لینا شرعاً جائز ہے۔ اس افادیت کی بنا پر عورت اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہے۔ ٭ ضرورت: کسی خاص ضرورت کی وجہ سے چہرہ ننگا کرنا، مثلاً: طبیب کے سامنے علاج کی غرض سے چہرہ یا ہاتھ یا جسم کا کوئی بھی حصہ بے نقاب کرنا، اسی طرح جنگ کے وقت اگر عورتوں کی ضرورت ہو تو حسب ضرورت ستر و حجاب (پردے) کے احکام میں نرمی ہو سکتی ہے۔ ٭ اضطرار: کیس مجبوری کی بنا پر چہرہ کھولنا جائز ہے، مثلاً: کسی کے گھر میں آگ لگ جائے یا سیلاب کی صورت ہو یا مکان کی چھت گر جائے تو ایسی صورت میں ستر و حجاب کے احکام ختم ہو جاتے ہیں۔ واللہ أعلم