قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا، وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا، ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَّكَّرُونَ، )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلاَ تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ، وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ، وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ، لَيْسَ [ص:51] عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَكُمْ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ} [النور: 28] وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ أَبِي الحَسَنِ، لِلْحَسَنِ: إِنَّ نِسَاءَ العَجَمِ يَكْشِفْنَ صُدُورَهُنَّ وَرُءُوسَهُنَّ؟ قَالَ: «اصْرِفْ بَصَرَكَ عَنْهُنَّ»، قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ} [النور: 30] وَقَالَ قَتَادَةُ: عَمَّا لاَ يَحِلُّ لَهُمْ {وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ} [النور: 31] {خَائِنَةَ الأَعْيُنِ} [غافر: 19]: مِنَ النَّظَرِ إِلَى مَا نُهِيَ عَنْهُ وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: فِي النَّظَرِ إِلَى الَّتِي لَمْ تَحِضْ مِنَ النِّسَاءِ: لاَ يَصْلُحُ النَّظَرُ إِلَى شَيْءٍ مِنْهُنَّ، مِمَّنْ يُشْتَهَى النَّظَرُ إِلَيْهِ، وَإِنْ كَانَتْ صَغِيرَةً وَكَرِهَ عَطَاءٌ، النَّظَرَ إِلَى الجَوَارِي الَّتِي يُبَعْنَ بِمَكَّةَ إِلَّا أَنْ يُرِيدَ أَنْ يَشْتَرِيَ

6228. حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَرْدَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ يَوْمَ النَّحْرِ خَلْفَهُ عَلَى عَجُزِ رَاحِلَتِهِ، وَكَانَ الفَضْلُ رَجُلًا وَضِيئًا، فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنَّاسِ يُفْتِيهِمْ، وَأَقْبَلَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ وَضِيئَةٌ تَسْتَفْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَفِقَ الفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، وَأَعْجَبَهُ حُسْنُهَا، فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، فَأَخْلَفَ بِيَدِهِ فَأَخَذَ بِذَقَنِ الفَضْلِ، فَعَدَلَ وَجْهَهُ عَنِ النَّظَرِ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ فِي الحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ، أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا، لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، فَهَلْ يَقْضِي عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

پھر اگر ان میں تمہیں کوئی ( آدمی ) نہ معلوم ہوتو بھی ان میں نہ داخل ہوجب تک کہ تم کو اجازت نہ مل جائے اور اگر تم سے کہہ دیا جائے کہ لوٹ جاؤ تو ( بلاخفتگی ) واپس لوٹ آیا کرو۔ یہی تمہارے حق میں زیادہ صفائی کی بات ہے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔ تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں ہے کہ تم ان مکانات میں داخل ہو جاؤ ( جن میں ) کوئی رہتا نہ ہو اور ان میں تمہارا کچھ مال ہو اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہواور جو کچھ تم چھپاتے ہو ۔ “اور سعید بن ابی الحسن نے ( اپنے بھائی ) حسن بصری سے کہا کہ عجمی عورتیں سینہ اور سر کھولے رہتی ہیں ۔ تو حسن بصرینے کہا کہ ان سے اپنی نگاہ پھیر لو، اللہ تعالیٰ فرماتاہے ” مومنوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گا ہوں کی حفاظت کریں۔ “ قتادہ نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جوان کے لئے جائز نہیں ہے ( اس سے حفاظت کریں ) اور آپ کہہ دیجئے ایمان والیوں سے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگا ر ظاہر نہ ہونے دیں۔ ” خائنۃالاعین “ سے مراد اس چیز کی طرف دیکھنا ہے ، جس سے منع کیا گیا ہے ۔ زہری نے نابالغ لڑکیوں کو دیکھنے کے سلسلہ میں کہا کہ ان کی بھی کسی ایسی چیز کی طرف نظر نہ کرنی چاہئے جسے دیکھنے سے شہوت نفسانی پیداہوسکتی ہو۔ خواہ وہ لڑکی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ عطاءنے ان لونڈیوں کی طرف نظر کرنے کو مکروہ کہا ہے ، جو مکہ میں بیچی جاتی ہیں ۔ ہاں اگر انہیں خرید نے کا ارادہ ہو تو جائز ہے۔ ( الحمد للہ اب مکہ میں ایسے بازار ختم ہوچکے ہیں

6228.

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت فضل بن عباس ؓ کو قربانی کے دن اپنے پیچھے سواری کی پشت پر بٹھایا۔ حضرت فضل ؓ بہت خوبصورت نوجوان تھے۔ نبی ﷺ لوگوں کو مسائل کا جواب دینے کے لیے ٹھہرے ہوئے تھے کہ اس دوران میں قبیلہ خثعم کی ایک خوبرو عورت بھی رسول اللہ ﷺ سے کوئی مسئلہ پوچھنے آئی تو فضل بن عباس ؓ نے اسے دیکھنا شروع کر دیا کیونکہ اس کا حسن و جمال انہیں بہت پسند آرہا تھا نبی ﷺ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فضل بن عباس ؓ اسے دیکھ رہے تھے۔ آپ نے پیچھے کی طرف سے ہاتھ لے جا کر فضل ؓ کی ٹھوڑی پکڑی اور ان کا چہرہ اسے دیکھنے سے دوسری طرف کر دیا۔ اس عورت نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ حج نے میرے بوڑھے باپ کو پالیا ہے جبکہ وہ سواری پر سیدھا نہیں بیٹھ سکتا، کیا اگر میں اس کی طرف سے حج کر لوں تو اس کی طرف سے یہ فریضہ ادا ہو جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں“