تشریح:
(1) اس حدیث میں سلام کو عام کرنے کا حکم ہے کیونکہ اس سے اسلام کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص قضائے حاجت میں مصروف ہو تو اسے سلام نہیں کہنا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں سلام کیا جب آپ پیشاب کے لیے بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث:90)
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں سلام نہیں کرنا چاہیے اور اگر کوئی جہالت کی بنا پر سلام کہہ دے تو اس کے سلام کا جواب نہ دیا جائے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح آہستہ اور احتیاط سے سلام کہتے تھے کہ بیدار آدمی اسے سن لیتا اور سونے والا اس سے بیدار نہ ہوتا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5362(2055)) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کو اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے سلام سے کسی سونے والے کی آنکھ نہ کھل جائے یا اس سے کسی دوسرے کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔
(3) بہرحال سلام کہنا ایک اسلامی شعار ہے۔ اسے خوب پھیلانا چاہیے اور ایسی کثرت سے رواج دیا جائے کہ اسلامی دنیا کی فضا اس کی دلربا آواز سے گونج اٹھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سلام کو عام کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جب انسان کسی ایسے گھر میں جائے جہاں کوئی بھی نہیں ہے تو اپنے آپ کو سلام کہہ کر اس میں داخل ہو۔ (فتح الباري:25/11) واللہ اعلم