تشریح:
(1) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سلام کو عام کرنا آپس کی محبت کا ذریعہ ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک پورے مومن نہ بن جاؤ اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔ کیا میں تمہیں ایک ایسے عمل سے آگاہ نہ کروں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت و الفت پیدا ہو گی، وہ یہ ہے کہ سلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:194(54)) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اہتمام کے ساتھ اس حقیقت سے ہی آگاہ فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے محبت و الفت پیدا ہوتی ہے۔ اگر یہ سلام دل کے اخلاص اور ایمانی رشتے کی بنیاد پر ہو تو پھر محبت و الفت پیدا ہونے کا یہ بہترین ذریعہ ہے لیکن اسے جان پہچان کی حد تک نہ رکھا جائے بلکہ بلا امتیاز ہر مسلمان کو سلام کرنا چاہیے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ آدمی مسجد کے پاس سے گزرے گا اور اس میں نماز نہیں پڑھے گا اور صرف اس شخص کو سلام کرے گا جسے وہ پہچانتا ہو گا۔ (مسند أحمد:387/1، بذکر السلام، وابن خزیمة في صحیحه بذکر الصلاة کما في الصحیحة للألباني، حدیث649) اس حدیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ کافر کو سلام کرنا جائز ہے، حالانکہ ایسا کرنا شرعاً درست نہیں کیونکہ کافر انسان مومن کے سلام کا قطعاً حق دار نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سلام کے اس عمومی انداز سے کافر مستثنیٰ ہے۔ اسے ابتداءً سلام کرنے سے گریز کیا جائے۔ (فتح الباري:27/11) واللہ أعلم