Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Saying "May Allah sacrifice me for you")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اورحضرت ابو بکر ؓ نے نبی کریم ﷺسے کہا ہم نے آپ پر اپنے باپوں اور ماؤں کو قربان کیا
6240.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے جبکہ ام المومنین صفیہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی سواری پر پیچھے بیٹھی تھیں راستے میں کسی جگہ اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی ﷺ نےاپنے اونٹ سئ چھلانگ لگائی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی: اللہ کے نبی ! اللہ تعالٰی مجھے آپ پر فدا کرے! کیا چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ ”لیکن عورت کا پتہ کرو“ چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے چہرے پر کپڑا ڈال لیا، پھر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھے اور وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اس کے بعد وہ کھڑی ہوگئیں پھر انہوں نے دونوں کے لیے پالانن مضبوط کرکے باندھا تو وہ سوار ہوکر پھر چل پڑے حتیٰ کہ جب ہو مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے یا مدینہ طیبہ پر ان کی نظر پڑی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد وثنا کرنے والے ہیں۔ “ آپ مسلسل یہ کلمات کہتے رہے یہاں تک کہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوگئے۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’’اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے!‘‘ اگر ایسا کہنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے منع فرما دیتے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر کوئی اپنے سے بڑے صاحب علم و فضل کو عزت افزائی کے لیے کہے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ثواب بھی دے گا کیونکہ یہ اس توقیر و احترام سے ہے جس کا شریعت نے ہمیں حکم دیا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ذکر کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے گئے تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا حال ہے؟ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابھی تک تم نے اپنی بدویت کو نہیں چھوڑا۔‘‘ (شعب الإیمان للبیهقي:459/6، رقم:8892) لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اور صحیح روایات کے مقابلے میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ اگر صحیح بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کو اس طرح کے کلمات نہیں کہنے چاہئیں بلکہ اس کے لیے انس و نرمی اور دعائے شفا کرنی چاہیے۔ (فتح الباري:698/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5959
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6185
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6185
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6185
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،مناقب الانصار، حدیث:3904)
اورحضرت ابو بکر ؓ نے نبی کریم ﷺسے کہا ہم نے آپ پر اپنے باپوں اور ماؤں کو قربان کیا
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے جبکہ ام المومنین صفیہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی سواری پر پیچھے بیٹھی تھیں راستے میں کسی جگہ اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی ﷺ نےاپنے اونٹ سئ چھلانگ لگائی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی: اللہ کے نبی ! اللہ تعالٰی مجھے آپ پر فدا کرے! کیا چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ ”لیکن عورت کا پتہ کرو“ چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے چہرے پر کپڑا ڈال لیا، پھر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھے اور وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اس کے بعد وہ کھڑی ہوگئیں پھر انہوں نے دونوں کے لیے پالانن مضبوط کرکے باندھا تو وہ سوار ہوکر پھر چل پڑے حتیٰ کہ جب ہو مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے یا مدینہ طیبہ پر ان کی نظر پڑی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد وثنا کرنے والے ہیں۔ “ آپ مسلسل یہ کلمات کہتے رہے یہاں تک کہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’’اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے!‘‘ اگر ایسا کہنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے منع فرما دیتے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر کوئی اپنے سے بڑے صاحب علم و فضل کو عزت افزائی کے لیے کہے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ثواب بھی دے گا کیونکہ یہ اس توقیر و احترام سے ہے جس کا شریعت نے ہمیں حکم دیا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ذکر کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے گئے تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا حال ہے؟ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابھی تک تم نے اپنی بدویت کو نہیں چھوڑا۔‘‘ (شعب الإیمان للبیهقي:459/6، رقم:8892) لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اور صحیح روایات کے مقابلے میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ اگر صحیح بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کو اس طرح کے کلمات نہیں کہنے چاہئیں بلکہ اس کے لیے انس و نرمی اور دعائے شفا کرنی چاہیے۔ (فتح الباري:698/10)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے (ایک موقع پر) نبی ﷺسے کہا تھا: ہمارے باپ اور ہماری مائیں آپ پر قربان ہوں
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا اوران سے انس بن مالک ؓ نے کہ وہ اور ابو طلحہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ( مدینہ منورہ کے لئے ) روانہ ہوئے ۔ ام المؤمنین حضرت صفیہ ؓا آنحضرت ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے تھیں ، راستہ میں کسی جگہ اونٹنی کاپاؤں پھسل گیا اورآنحضرت ﷺ اور ام المؤمنین گر گئے ۔ انس ؓ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے ابو طلحہ نے اپنی سواری سے فوراً اپنے کو گرا دیا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کیا یا نبی اللہ ! ( ﷺ ) اللہ آپ پرمجھے قربان کرے کیا آپ کو کوئی چوٹ آئی ؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ، البتہ عورت کو دیکھو ۔ چنانچہ ابو طلحہ ؓ نے کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا ، پھر ام المؤمنین کی طرف بڑھے اور اپنا کپڑا ان کے اوپر ڈال دیا ۔ اس کے بعد وہ کھڑی ہو گئیں اور آنحضرت ﷺ اور ام المؤمنین کے لئے ابو طلحہ نے پالان مضبوط باندھا ۔ اب آپ نے سوا ر ہو کر پھر سفر شروع کیا ، جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے ( یا یوں کہا کہ مدینہ دکھائی دینے لگا ) تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ” ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اور اس کی حمد بیان کرتے ہوئے “ آنحضرت ﷺ اسے برابر کہتے رہے یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہو گئے ۔
حدیث حاشیہ:
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر از راہ تعظیم لفظ جعلني اللہ فداك (اللہ مجھ کو آپ پر قربان کرے) بولا۔ جس کو آپ نے ناپسند نہیں فرمایا۔ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ مدینہ منورہ خیریت سے واپسی پر آپ نے آئبون تائبون الخ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ اب بھی سفر سے وطن بخیریت واپسی پر ان الفاظ کا ورد کرنا مسنون ہے۔ خاص طور پر حاجی لوگ جب وطن پہنچیں تو یہ دعا پڑھتے ہوئے اپنے شہر یا بستی میں داخل ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): That he and Abu Talha were coming in the company of the Prophet (ﷺ) towards Medina), while Safiya (the Prophet's wife) was riding behind him on his she-camel. After they had covered a portion of the way suddenly the foot of the she-camel slipped and both the Prophet (ﷺ) and the woman (i.e., his wife, Safiya) fell down. Abu Talha jumped quickly off his camel and came to the Prophet (ﷺ) (saying.) "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Let Allah sacrifice me for you! Have you received any injury?" The Prophet (ﷺ) said, "No, but take care of the woman (my wife)." Abu Talha covered his face with his garment and went towards her and threw his garment over her. Then the woman got up and Abu Talha prepared their she camel (by tightening its saddle, etc.) and both of them (the Prophet (ﷺ) and Safiya) mounted it. Then all of them proceeded and when they approached near Medina, or saw Medina, the Prophet (ﷺ) said, "Ayibun,' abidun, taibun, liRabbina hamidun (We are coming back (to Medina) with repentance, worshipping (our Lord) and celebrating His (our Lord's) praises". The Prophet (ﷺ) continued repeating these words till he entered the city of Medina.