تشریح:
(1) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ دورکعت پڑھی جاسکیں، چنانچہ اس حدیث میں وضاحت ہےکہ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مغرب کی اذان کے وقت مسجد کے ستونوں کا رخ کرتے تاکہ انھیں سترہ بنا کر جماعت سے پہلے پہلے دو نفل پڑھ سکیں، پھر جب رسول اللہ ﷺ گھر سے مسجد میں تشریف لاتے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ابھی نماز میں مشغول ہوتے تھے، چنانچہ ایک اور حدیث میں ہے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم غروب آفتاب کے بعد دورکعت ادا کرتے جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمیں دیکھ رہے ہوتے۔ آپ نہ تو ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ منع ہی فرماتے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1938(836)) رسول اللہ ﷺ سے اذان کے بعد اور جماعت سے پہلے دورکعت پڑھنے کا حکم بھی بعض روایات میں ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’مغرب سے پہلے نماز پڑھو، مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔‘‘ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: ’’یہ حکم صرف اس شخص کےلیے ہےجو پڑھنا چاہے۔‘‘ آپ نے یہ بات اس اندیشے کے پیش نظر فرمائی کہ کہیں لوگ اسے سنت لازمہ نہ بنالیں۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:1183) خود رسول اللہ ﷺ سے بھی ان دورکعتوں کا پڑھنا ثابت ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب سے پہلے دو رکعت ادا فرمائیں۔ (صحیح ابن حبان (الإحسان)، حدیث: 1586) خود رسول اللہ ﷺ نے مغرب سے پہلے دو رکعت ادا فرمائیں۔ ان الفاظ کو شیخ البانی نے شاذ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:(الضعیفة، رقم الحدیث:5662) الغرض امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کچھ فاصلہ ضرور ہونا چاہیے۔ وہ فاصلہ کم از کم اتنا ضرور ہو کہ دورکعت پڑھی جاسکیں۔ جب مغرب کی نماز سے پہلے دورکعت پڑھنے کا وقت دیا جاتا تھا، حالانکہ نماز مغرب کا وقت محدود ہے تو دوسری نماز وں کےلیے تو بالاولیٰ اتنا فاصلہ ثابت ہوگا۔
(2) حدیث کے آخر میں (لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ شَيْءٌ) اس کا مفہوم یہ نہیں کہ اذان اور اقامت کے درمیان کچھ فاصلہ نہ ہوتا تھا بلکہ شئي پر تنوین، تعظیم کےلیے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا۔ اس کی وضاحت امام بخاری ؒ نے عثمان بن جبلہ اور ابو داود کی روایت سے کی ہے کہ ان دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا تھا، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ روایت میں نفئ مطلق مجازی طور پر مبالغے کے لیے ہے اور دوسری روایت میں جو قلت وقت کو ثابت کیا گیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ (فتح الباري:142/2) واضح رہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان قلت وقت کا فاصلہ صرف نماز مغرب سے متعلق ہے کیونکہ اس کاوقت کچھ محدود ہوتا ہے، دوسری نمازوں کےلیے اس سے زیادہ وقت بھی رکھا جاسکتا ہے، لیکن مغرب سے پہلے بھی اتنا وقت ضرور ہونا چاہیے کہ کم از کم دو رکعت پڑھی جاسکیں۔