Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To draw lots for pronouncing the Adhan)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور کہتے ہیں کہ اذان دینے پر کچھ لوگوں میں اختلاف ہوا تو حضرت سعد بن وقاص نے ( فیصلہ کے لیے ) ان میں قرعہ ڈلوایا۔
625.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور صف اول میں کیا ثواب ہے، پھر وہ اپنے لیے قرعہ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائیں تو ضرور قرعہ اندازی کریں۔ اور اگر لوگوں کو علم ہو کہ نماز ظہر کے لیے جلدی آنے کا کتنا ثواب ہے تو ضرور سبقت کریں۔ اور اگر وہ جان لیں کہ عشاء اور فجر باجماعت ادا کرنے میں کتنا ثواب ہے تو ان دونوں (کی جماعت) میں ضرور آئیں اگرچہ انہیں سرینوں کے بل چل کر آنا پڑے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں اذان دینے کےلیے متعدد مؤذن رکھے جا سکتے ہیں، تاہم وقت کےلیے اذان صرف ایک مؤذن کہے گا کیونکہ قرعہ اندازی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب مؤذن متعدد ہوں۔ بعض حضرات نے حدیث میں وارد لفظ "استهام" سے تیر اندازی مراد لی ہے، لیکن امام بخاری کے نزدیک اس کے معنی قرعہ اندازی ہیں۔ انھوں نے حضرت سعد ؓ کا قرعہ سے متعلق قصہ بھی اس معنی کی تائید کے لیے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ صحیح مسلم میں قرعہ کے صریح الفاظ بھی اس معنی کے مؤید ہیں۔ (فتح الباري:128/2) (2) قرعہ اندازی کے ذریعے سے کوئی شرعی حکم نہیں ثابت کیا جاسکتا بلکہ اسے مساویانہ حقوق رکھنے والوں کے درمیان نزاع کے موقع پر فیصلہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی حل مشکلات، قطع نزاع، دفع ظنون اور تالیف قلبی کے لیے قرعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں متعدد عنوان قائم کیے ہیں، مثلا:٭هل يقرع في القسمة (كتاب الشركة: 6) ٭القرعة في المشكلات (كتاب الشهادات: 30) ٭القرعة بين النساء (كتاب النكاح: 98) اس مقام پر امام بخاری ؒ کا مقصود اذان کی فضیلت بیان کرنا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ایک مسجد میں نماز کے لیے صرف ایک ہی اذان دینی چاہیے، کیونکہ اگر متعدد اذانیں جائز ہوتیں تو قرعہ اندازی کی نوبت کیوں پیش آتی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
611
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
615
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
615
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
615
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس اثر کو امام طبری اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔راوی کہتا ہے کہ ہم نے فتح قادسیہ کے موقع پر اپنے ساتھیوں کی احوال گیری کی تو پتا چلا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرف سے مقرر کردہ مؤذن زخموں سے چور ہے۔جب نماز کے لیے اذان کا وقت ہوا تو اذان کہنے ہی کے سلسلے میں دیگر سپاہیوں کی آپس میں بحث ہوگئی۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے قرعے کے ذریعے سے ایک سپاہی کے متعلق اذان کہنے کا فیصلہ فرمایا تو اس نے اذان کہی۔(فتح الباری: 2/127)عربی لغت کے اعتبار سے استہام کے دو معنی ہیں:تیر اندازی کرنا اور قرعہ ڈالنا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اثر کے ذریعے سے عنوان میں آنے والے لفظ استہام کے معنع متعین فرمائے ہیں کہ اس کے معنی قرعہ اندازی کرنا ہیں۔
اور کہتے ہیں کہ اذان دینے پر کچھ لوگوں میں اختلاف ہوا تو حضرت سعد بن وقاص نے ( فیصلہ کے لیے ) ان میں قرعہ ڈلوایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان اور صف اول میں کیا ثواب ہے، پھر وہ اپنے لیے قرعہ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائیں تو ضرور قرعہ اندازی کریں۔ اور اگر لوگوں کو علم ہو کہ نماز ظہر کے لیے جلدی آنے کا کتنا ثواب ہے تو ضرور سبقت کریں۔ اور اگر وہ جان لیں کہ عشاء اور فجر باجماعت ادا کرنے میں کتنا ثواب ہے تو ان دونوں (کی جماعت) میں ضرور آئیں اگرچہ انہیں سرینوں کے بل چل کر آنا پڑے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں اذان دینے کےلیے متعدد مؤذن رکھے جا سکتے ہیں، تاہم وقت کےلیے اذان صرف ایک مؤذن کہے گا کیونکہ قرعہ اندازی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب مؤذن متعدد ہوں۔ بعض حضرات نے حدیث میں وارد لفظ "استهام" سے تیر اندازی مراد لی ہے، لیکن امام بخاری کے نزدیک اس کے معنی قرعہ اندازی ہیں۔ انھوں نے حضرت سعد ؓ کا قرعہ سے متعلق قصہ بھی اس معنی کی تائید کے لیے پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ صحیح مسلم میں قرعہ کے صریح الفاظ بھی اس معنی کے مؤید ہیں۔ (فتح الباري:128/2) (2) قرعہ اندازی کے ذریعے سے کوئی شرعی حکم نہیں ثابت کیا جاسکتا بلکہ اسے مساویانہ حقوق رکھنے والوں کے درمیان نزاع کے موقع پر فیصلہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یعنی حل مشکلات، قطع نزاع، دفع ظنون اور تالیف قلبی کے لیے قرعہ ڈالا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں متعدد عنوان قائم کیے ہیں، مثلا:٭هل يقرع في القسمة (كتاب الشركة: 6) ٭القرعة في المشكلات (كتاب الشهادات: 30) ٭القرعة بين النساء (كتاب النكاح: 98) اس مقام پر امام بخاری ؒ کا مقصود اذان کی فضیلت بیان کرنا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ایک مسجد میں نماز کے لیے صرف ایک ہی اذان دینی چاہیے، کیونکہ اگر متعدد اذانیں جائز ہوتیں تو قرعہ اندازی کی نوبت کیوں پیش آتی۔
ترجمۃ الباب:
بیان کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اذان دینے میں جھگڑا کیا تو (اسے ختم کرنے کے لیے) حضرت سعد ؓ نے ان کے مابین قرعہ اندازی کی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے سمی سے جو ابوبکر عبدالرحمن بن حارث کے غلام تھے خبر دی، انھوں نے ابوصالح ذکوان سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے اور نماز پہلی صف میں پڑھنے سے کتنا ثواب ملتا ہے۔ پھر ان کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوائے اور کوئی چارہ نہ باقی رہتا، تو البتہ اس پر قرعہ اندازی ہی کرتے اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا ثواب ملتا ہے تو اس کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے۔ اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ عشاء اور صبح کی نماز کا ثواب کتنا ملتا ہے، تو ضرور چوتڑوں کے بل گھسیٹتے ہوئے ان کے لیے آتے۔
حدیث حاشیہ:
سلام کےبعد امام کاحالت تشہد سے پھر کر مقتدیوں کی طرف رخ کر کے بیٹھنا مسنون ہے۔ اور اس طرح بیٹھے کہ دائیں جانب والوں کی طرف رخ قدرے زیادہ ہو اور بائیں طرف والے بھی اچھی طرح اس کی نظر میں ہوں۔ اس طرح بیٹھنا کہ بائیں جانب والوں کی طرف پشت ہوجائے صحیح نہیں ہے۔ اور مذکورہ عمل دائمی نہیں ہونا چاہیے بلکہ کبھی کبھی رخ بائیں جانب بھی ہونا چائیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If the people knew the reward for pronouncing the Adhan and for standing in the first row (in congregational prayers) and found no other way to get that except by drawing lots they would draw lots, and if they knew the reward of the Zuhr prayer (in the early moments of its stated time) they would race for it (go early) and if they knew the reward of 'Isha' and Fajr (morning) prayers in congregation, they would come to offer them even if they had to crawl."