تشریح:
(1)ابتلاء وآزمائش کا یہ عظیم واقعہ تھا جس سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دوچار ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت جہاد کی اہمیت کے پیش نظر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جیسے جاں نثار اور اسلام کے فدائی کے لیے قطعاً یہ مناسب نہ تھا کہ وہ اس موقع پر سستی کا مظاہرہ کرتے، جیسے وہ خود عظیم المرتبت تھے، ان کی کوتاہی کو بھی وہی درجہ دیا گیا، ان سے سلام وکلام ختم کر دیا گیا حتی کہ ان کے جگری دوست حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے سلام کا جواب نہ دیا اور ان سے بات کرنا بھی گوارانہ کی۔
(2) اگرچہ اسلام میں سلام عام کرنے کا حکم ہے لیکن جمہور اہل علم نے سلام کے اس عام حکم سے فاسق و فاجر کے ساتھ سلام وکلام ختم کرنے کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر فاسق وفاجر سے کسی فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو سلام کہنے یا سلام کا جواب دینے میں کوئی حرج نہیں اور سلام کرتے وقت یہ نیت کرے کہ سلام اللہ تعالیٰ کا نام ہے گویا وہ سلام کے وقت یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔ (فتح الباري:49/11) واللہ أعلم