تشریح:
(1) یہ ایک خاص واقعہ ہے کہ یہودیوں نے بڑے بھونڈے الفاظ میں اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا اور سلام کے بجائے کھلے طور پر بددعا کے الفاظ استعمال کیے تھے، اس لیے انھیں اسی طرح کا جواب دیا گیا، یعنی اگر تم ہماری موت چاہتے ہو تو ہم بھی تمھاری موت کے طالب ہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں بھونڈا پن نہیں ہے جو یہودیوں کی طرف سے تھا۔ اگر کوئی غیر مسلم اچھے الفاظ میں دعا سلام کرتا ہے تو اس کا جواب بھی اچھا دینا چاہیے۔
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو اس لیے تنبیہ فرمائی تاکہ فحش گوئی ان کی عادت نہ بن جائے اور یہودیوں کو برا بھلا کہنے میں مبالغہ آمیزی سے کام نہ لیا جائے۔ (فتح الباري:53/11)