Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: The saying of Takbir and Tasbih at the time of wonder)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6274.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ صفیہ بنت حبیی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کرنے کے لیے آئیں جبکہ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد میں متعکف تھے۔ انہوں نے عشاء کے وقت تھوڑی دیر تک آپ ﷺ سے باتیں کیں۔ پھر واپس جانے کے لیے اٹھیں تو نبی ﷺ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تاکہ انہیں واپس چھوڑنے جائیں، جب وہ مسجد کے اس دروازے کے پاس پہنچیں جہاں نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام سلمہ ؓ کا گھر تھا تو ان دونوں کے پاس سے دو انصاری آدمی گزرے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اور آگے بڑھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: تھوڑی دیر کے لیے رک جاؤ دیکھو! میری بیوی سیدہ صفیہ بن حیبی ہے۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! سبحان اللہ۔ ان حضرات پر یہ بات بہت گراں گزری۔ آپ نے فرمایا: ”شیطان“ انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جس طرح رگوں میں خون گردش کرتا ہے، مجھے خطرہ محسوس ہوا مبادا تمہارے دلوں میں کوئی چیز ڈال دے۔
تشریح:
(1) دونوں انصاری بزرگوں نے تعجب کے وقت سبحان اللہ کہا۔ اگر ایسے موقع پر یہ کہنا درست نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں منع فرما دیتے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ متوقع غلط فہمی کو قبل از وقت دور کرنا سنت نبوی ہے۔ واللہ أعلم۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری صحابہ کے دلوں سے متوقع غلط فہمی کو دور فرمایا کہ یہ میری بیوی صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں، کوئی اجنبی عورت نہیں جس کے پاس میں رات کے وقت کھڑا ہوں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5993
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6219
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6219
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6219
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ صفیہ بنت حبیی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کرنے کے لیے آئیں جبکہ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد میں متعکف تھے۔ انہوں نے عشاء کے وقت تھوڑی دیر تک آپ ﷺ سے باتیں کیں۔ پھر واپس جانے کے لیے اٹھیں تو نبی ﷺ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے تاکہ انہیں واپس چھوڑنے جائیں، جب وہ مسجد کے اس دروازے کے پاس پہنچیں جہاں نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام سلمہ ؓ کا گھر تھا تو ان دونوں کے پاس سے دو انصاری آدمی گزرے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اور آگے بڑھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: تھوڑی دیر کے لیے رک جاؤ دیکھو! میری بیوی سیدہ صفیہ بن حیبی ہے۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! سبحان اللہ۔ ان حضرات پر یہ بات بہت گراں گزری۔ آپ نے فرمایا: ”شیطان“ انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جس طرح رگوں میں خون گردش کرتا ہے، مجھے خطرہ محسوس ہوا مبادا تمہارے دلوں میں کوئی چیز ڈال دے۔
حدیث حاشیہ:
(1) دونوں انصاری بزرگوں نے تعجب کے وقت سبحان اللہ کہا۔ اگر ایسے موقع پر یہ کہنا درست نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں منع فرما دیتے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ متوقع غلط فہمی کو قبل از وقت دور کرنا سنت نبوی ہے۔ واللہ أعلم۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری صحابہ کے دلوں سے متوقع غلط فہمی کو دور فرمایا کہ یہ میری بیوی صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں، کوئی اجنبی عورت نہیں جس کے پاس میں رات کے وقت کھڑا ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے امام زین العابدین علی بن حسین نے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ بنت حی ؓ نے انہیں خبر دی کہ وہ آنحضرت ﷺ کے پاس ملنے آئیں۔ آنحضرت ﷺ اس وقت مسجد میں رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کئے ہوئے تھے۔ عشاء کے وقت تھوڑی دیر انہوں نے نے آنحضرت ﷺ سے باتیں کیں اورواپس لوٹنے کے لئے اٹھیں تو آنحضرت ﷺ بھی انہیں چھوڑ آنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ جب وہ مسجد کے اس دروازہ کے پاس پہنچیں جہاں آنحضرت ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ ؓ کا حجرہ تھا، تو ادھر سے دو انصار ی صحابی گزرے اور آنحضرت ﷺ کو سلام کیا اور آگے بڑھ گئے۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے لئے ٹھہرجاؤ۔ یہ صفیہ بنت حی ؓ میری بیوی ہیں۔ ان دونوں صحابہ نے عرض کیا۔ سبحان اللہ، یا رسول اللہ۔ ان پر بڑا شاق گزرا۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے، اس لئے مجھے خوف ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دل میں کوئی شبہ نہ ڈال دے۔
حدیث حاشیہ:
ایسے مواقع پر کسی پیدا ہونے والی غلط فہمی کو پہلے ہی دفع کر دینا بھی سنت نبوی ہے جو بہت ہی باعث ثواب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Safiya bint Huyai (RA) : The wife of the Prophet (ﷺ) that she went to Allah's Apostle (ﷺ) while he was in Itikaf (staying in the mosque) during the last ten nights of the month of Ramadan. She spoke to him for an hour (a while) at night and then she got up to return home. The Prophet (ﷺ) got up to accompany her, and when they reached the gate of the mosque opposite the dwelling place of Um Salama, the wife of the Prophet, two Ansari men passed by, and greeting Allah's Apostle (ﷺ) , they quickly went ahead. Allah's Apostle (ﷺ) said to them, "Do not be in a hurry She is Safiya, the daughter of Huyai." They said, "Subhan Allah! O Allah's Apostle (ﷺ) (how dare we suspect you)." That was a great thing for both of them. The Prophet (ﷺ) then said, "Satan runs in the body of Adam's son (i.e. man) as his blood circulates in it, and I was afraid that he (Satan) might insert an evil thought in your hearts."