قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات وشمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ (بَابُ القِرَاءَةِ وَالعَرضِ عَلَی المُحَدِّثِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: القِرَاءَةُ وَالعَرْضُ عَلَى المُحَدِّثِ وَرَأَى الحَسَنُ، وَالثَّوْرِيُّ، وَمَالِكٌ: «القِرَاءَةَ جَائِزَةً» وَاحْتَجَّ بَعْضُهُمْ فِي القِرَاءَةِ عَلَى العَالِمِ بِحَدِيثِ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَةَ: قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: «فَهَذِهِ قِرَاءَةٌ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ أَخْبَرَ ضِمَامٌ قَوْمَهُ بِذَلِكَ فَأَجَازُوهُ» وَاحْتَجَّ مَالِكٌ: بِالصَّكِّ يُقْرَأُ عَلَى القَوْمِ، فَيَقُولُونَ أَشْهَدَنَا فُلاَنٌ وَيُقْرَأُ ذَلِكَ قِرَاءَةً عَلَيْهِمْ وَيُقْرَأُ عَلَى المُقْرِئِ، فَيَقُولُ القَارِئُ: أَقْرَأَنِي فُلاَنٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ [ص:23] بْنُ الحَسَنِ الوَاسِطِيُّ، عَنْ عَوْفٍ، عَنِ الحَسَنِ، قَالَ: «لاَ بَأْسَ بِالقِرَاءَةِ عَلَى العَالِمِ» وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الفَرَبْرِيُّ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ البُخَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ: إِذَا قُرِئَ عَلَى المُحَدِّثِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَقُولَ: حَدَّثَنِي قَالَ: وَسَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ يَقُولُ عَنْ مَالِكٍ، وَسُفْيَانَ القِرَاءَةُ عَلَى العَالِمِ وَقِرَاءَتُهُ سَوَاءٌ.

63. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ هُوَ المَقْبُرِيُّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المَسْجِدِ، دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ، فَأَنَاخَهُ فِي المَسْجِدِ ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْنَا: هَذَا الرَّجُلُ الأَبْيَضُ المُتَّكِئُ. فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا ابْنَ عَبْدِ المُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَجَبْتُكَ». فَقَالَ الرَّجُلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي سَائِلُكَ فَمُشَدِّدٌ عَلَيْكَ فِي المَسْأَلَةِ، فَلاَ تَجِدْ عَلَيَّ فِي نَفْسِكَ؟ فَقَالَ: «سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ» فَقَالَ: أَسْأَلُكَ بِرَبِّكَ وَرَبِّ مَنْ قَبْلَكَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ؟ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ نَعَمْ». قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ الصَّلَوَاتِ الخَمْسَ فِي اليَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟ قَالَ: «اللَّهُمَّ نَعَمْ». قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نَصُومَ هَذَا الشَّهْرَ مِنَ السَّنَةِ؟ قَالَ: «اللَّهُمَّ نَعَمْ». قَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ تَأْخُذَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَتَقْسِمَهَا عَلَى فُقَرَائِنَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ نَعَمْ». فَقَالَ الرَّجُلُ: آمَنْتُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، وَأَنَا رَسُولُ مَنْ وَرَائِي مِنْ قَوْمِي، وَأَنَا ضِمَامُ بْنُ ثَعْلَبَةَ أَخُو بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ وَرَوَاهُ مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الحَمِيدِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ المُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.

مترجم:

ترجمۃ الباب:

ترجمۃ الباب

اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ ﷺنے فرمایا:  ہاں۔ تو یہ ( گویا ) آنحضرتﷺ کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انھوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔ابن بطال نے کہا کہ دستاویز والی دلیل بہت ہی پختہ ہے کیونکہ شہادت تواخبار سے بھی زیادہ اہم ہے۔ مطلب یہ کہ صاحب معاملہ کو دستاویز پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ اس کا اقرار کرے تو اس سے روایت کرنا صحیح ہوگا۔حدثنا محمد بن سلام حدثنا محمد بن الحسن الواسطي عن عوف عن الحسن قال لا بأس بالقراءة على العالم‏.‏ وأخبرنا محمد بن يوسف الفربري وحدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال حدثنا عبيد الله بن موسى عن سفيان قال إذا قرئ على المحدث فلا بأس أن يقول حدثني‏.‏ قال وسمعت أبا عاصم يقول عن مالك وسفيان القراءة على العالم وقراءته سواء‏.‏ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انھوں نے عوف سے، انھوں نے حسن بصری سے، انھوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔

63.

حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم مسجد میں نبیﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اپنے اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا، پھر پوچھنے لگا: تم میں محمد (ﷺ) کون ہیں؟ نبی ﷺ اس وقت صحابہؓ میں تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا: یہ سفید رنگ والے، تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ آپ سے کہنے لگا: اے فرزند عبدالمطلب! نبیﷺ نے فرمایا: ’’(پوچھ) میں تجھے جواب دیتا ہوں۔‘‘ اس نے نبیﷺ  سے کہا: میں آپ سے کچھ دریافت کرنے والا ہوں اور اس میں سختی کروں گا، آپ دل میں مجھ پر ناراض نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’(کوئی بات نہیں) جو چاہے پوچھ!‘‘ اس نے پوچھا: میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے مالک کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘  پھر اس نے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ شاہد ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے سال بھر میں رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘  پھر کہنے لگا: میں آپ کو قسم دیتا ہوں، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے امراء سے صدقہ لے کر ہمارے فقراء پر تقسیم کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اللہ گواہ ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا: میں اس (شریعت) پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لائے ہیں۔ میں اپنی قوم کا نمائندہ بن کر حاضر خدمت ہوا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور قبیلہ سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس حدیث کو موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے بھی سلیمان اور ثابت کے واسطے سے حضرت انس ؓ سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔