تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلقین کردہ الفاظ میں نبوت اور رسالت دونوں منصب جمع ہو جاتے ہیں جبکہ صحابی نے جن الفاظ کو دہرایا اس میں صرف رسالت کا منصب آتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہی الفاظ ادا کرو جو میں نے تعلیم دیے ہیں۔‘‘
(2) اس سے ثابت ہوا کہ ادعیہ ماثورہ اور اذکار مسنونہ میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنا درست نہیں بلکہ انہی الفاظ پر اکتفا کیا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں کیونکہ ان میں وہ خاصیت ہے جو دوسرے الفاظ میں نہیں، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے رات کو با وضو سونے کی فضیلت بیان کی ہے۔ اس میں ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں اس فضیلت کی صراحت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو آدمی رات باوضو ہو کر اللہ کا ذکر کرتے ہوئے سوتا ہے، پھر رات کو بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5042)