Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: How to return the greeting of Dhimmi)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6313.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب اہل کتاب تمہیں سلام کہیں تو تم اس کے جواب میں صرف ''وعلیکم'' کہو۔
تشریح:
(1)بعض دیگر احادیث میں کفار کے سلام کے جواب میں صرف "علیکم" آیا ہے، یعنی واؤ کے بغیر۔بعض اہل علم نے واؤ عاطفہ اور اس کے بغیر سلام کا جواب دینے میں نکتہ آفرینی کی ہے، تاہم دونوں طرح صحیح ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں۔ بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سلام کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ انداز اختیار کیا ہے جیسا کہ مسيء الصلاة نے جب آپ کو سلام کیا تو آپ نے"وعلیك" کہا تھا۔ (جامع الترمذي، الاستئذان، حدیث:2692) (2)اب یہ انداز اہل کتاب کو جواب دینے کے لیے مشہور ہوچکا ہے، اس لیے مسلمان کے جواب میں اس انداز کو اختیار نہیں کرنا چاہیے،چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: "ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ اہل کتاب کے سلام کے جواب میں "وعلیکم" کے الفاظ پر کسی چیز کا اضافہ نہ کریں۔ (مسند أحمد:113/3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نےبھی اس امر کو بیان کیا ہے۔(فتح الباري:56/13)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6032
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6258
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6258
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6258
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ذمہ کے سلام کا جواب دینا ممنوع نہیں ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ جب تمھیں سلام کیا جائے تو اچھا جواب دو یا کم ازکم اس جیسا ہی کہہ دو۔(النساء4: 86) ابن بطال نے بعض علماء کے حوال سے لکھا ہے کہ مذکورہ آیت کے پیش نظر اہل ذمہ کے سلام کا جواب دینا ضروری ہے۔(عمدۃ القاری:15/371)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ جب تمھیں کوئی سلام کہے تو اسے جواب دو اگرچہ وہ مجوسی ہو،(مسندابی یعلی الموصلی:3/100،رقم:1530)البتہ امام عطاء کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت کریمہ اہل اسلام کے ساتھ خاص ہے،لہٰذا کافر کے سلام کا مطلق طور پر جواب نہ دیا جائے۔(فتح الباری:11/51)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب اہل کتاب تمہیں سلام کہیں تو تم اس کے جواب میں صرف ''وعلیکم'' کہو۔
حدیث حاشیہ:
(1)بعض دیگر احادیث میں کفار کے سلام کے جواب میں صرف "علیکم" آیا ہے، یعنی واؤ کے بغیر۔بعض اہل علم نے واؤ عاطفہ اور اس کے بغیر سلام کا جواب دینے میں نکتہ آفرینی کی ہے، تاہم دونوں طرح صحیح ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں۔ بعض اوقات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سلام کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ انداز اختیار کیا ہے جیسا کہ مسيء الصلاة نے جب آپ کو سلام کیا تو آپ نے"وعلیك" کہا تھا۔ (جامع الترمذي، الاستئذان، حدیث:2692) (2)اب یہ انداز اہل کتاب کو جواب دینے کے لیے مشہور ہوچکا ہے، اس لیے مسلمان کے جواب میں اس انداز کو اختیار نہیں کرنا چاہیے،چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: "ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ اہل کتاب کے سلام کے جواب میں "وعلیکم" کے الفاظ پر کسی چیز کا اضافہ نہ کریں۔ (مسند أحمد:113/3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نےبھی اس امر کو بیان کیا ہے۔(فتح الباري:56/13)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیا ن کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشيم نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی، ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم اس کے جواب میں صرف ''وعلیکم'' کہو۔
حدیث حاشیہ:
یہ بھی ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے جب کہ یہودی نے صاف لفظوں میں بد دعا کے الفاظ سلام کی جگہ استعمال کئے تھے۔ آج کے دور میں غیر مسلم اگر کوئی اچھے لفظوں میں دعا سلام کرتا ہے تو اس کا جواب بھی اچھا ہی دینا چاہئے ﴿وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا﴾ میں عام حکم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): the Prophet (ﷺ) said, "If the people of the Scripture greet you, then you should say (in reply), 'Wa'alaikum (And on you).' "