تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک مسلمان بیوی اس امر کی پابند ہے کہ وہ شوہر کی خدمت کے علاوہ گھر کے تمام کام سر انجام دے جیسا کہ سیدات اہل بیت، عام مسلمانوں کی خواتین حتی کہ امہات المومنین اپنے اپنے گھروں میں گھر داری کے تمام کام کرتی تھیں، اس لیے بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ بیوی پر اپنے شوہر کی دلداری کے علاوہ کچھ واجب نہیں محض بے اصل اور بے بنیاد بات ہے۔ ایک دوسرے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سیدات کو یہ وظیفہ فرض نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین کی تھی۔ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2987)
(2) یہ وظیفہ "تسبیح فاطمہ" کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی خوب خوب پابندی کی حتی کہ صفین کی رات جس میں وہ انتہائی مصروف تھے، اس میں بھی انہوں نے اسے پڑھا جیسا کہ ایک روایت میں ہے۔ (صحیح البخاري، النفقات، حدیث: 5362) البتہ مصروفیت کی وجہ سے رات کے پہلے حصے میں پڑھنے کے بجائے آخری حصے میں اسے پڑھا۔ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5064) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’بیٹی! اہل صفہ کی فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ وہ اکثر بھوکے رہتے ہیں۔ میں ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ (مسند أحمد: 106/1) دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’شہدائے بدر کے یتیم بچے تم سے پہلے لے چکے ہیں، میں انہیں دوں گا، ان کا زیادہ حق ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2987)
(3) ہمارے ہاں سرکاری افسران میں اقربا پروری کا رجحان ہے، اس حدیث سے ان حضرات کی خوب خوب تردید ہوتی ہے۔ واللہ المستعان