تشریح:
لوگوں کو جماعت کےلیے کب کھڑا ہونا چاہیے؟ اس کے متعلق متقدمین میں اختلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے کوئی فیصلہ کن عنوان قائم نہیں کیا۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اقامت ختم ہونے کے بعد مقتدیوں کو اٹھنا چاہیے جبکہ کچھ فقہاء کہتے ہیں کہ اقامت کے آغاز ہی میں مقتدیوں کو نماز کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے۔ اسی طرح بعض حي على الصلاة اور بعض قد قامت الصلاة کہنے کے وقت اٹھنے کے قائل ہیں۔ تنقیح مسئلہ یہ ہے کہ اگر امام مسجد سے باہر ہو تو مقتدیوں کو چاہیے کہ جب وہ مسجد میں آجائے تو صف بندی کے لیے کھڑے ہوں۔ اگر وہ مسجد کے اندرہو تو جب وہ اپنی جگہ سے جماعت کےلیے اٹھے تو مقتدی بھی اس وقت کھڑے ہوں۔ مذکورہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابھی گھر میں ہوتے تھے کہ نماز کے لیے اقامت کہہ دی جاتی تھی، لیکن ایک دوسری حدیث میں ہےکہ حضرت بلال ؓ اس وقت تک تکبیر نہ کہتے تھے جب تک رسول اللہ ﷺ گھر سے برآمد نہ ہوجاتے۔ ان کے درمیان بایں طور تطبیق دی گئی ہے کہ حضرت بلال ؓ رسول اللہ ﷺ کے گھر سے نکلنے کا انتظار کرتے رہتے۔ جب رسول اللہ ﷺ پر حضرت بلال ؓ کی نظر پڑتی تو اقامت کہنا شروع کردیتے جبکہ رسول اللہ ﷺ اکثر لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے تھے۔ جب لوگ آپ کو دیکھتے تو نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے، پھر رسول اللہ ﷺ اس وقت تک جماعت کے لیے مصلے پر نہ آتے جب تک کہ لوگ اپنی صفیں درست نہ کرلیتے۔ (فتح الباري:185/2)