Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Whoever said that there should be one Mu'adh-dhin in the journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
642.
حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک مرتبہ سخت سردی کی رات میں ضجنان پہاڑی پر اذان دی، پھر فرمایا: ’’اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں سخت سردی یا بارش کی رات میں اپنے مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اذان کہنے کے بعد یوں کہہ دے: توجہ سے سنو! ’’اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوان کے آخری حصے کو ثابت کرنے کےلیے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھنے کا اعلان حي علی الصلاة کی جگہ یا اس کے بعد یا اذان سے فراغت کے بعد کیا کہا جائے؟ متقدمین کے ہاں اس کے متعلق تین موقف حسب ذیل ہیں: ٭حي علی الصلاة کی جگہ ان الفاظ کو کہا جائے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے مؤذن کو کہا کہ جب تو أشهد ان محمداً رسول الله کہے تو حي علی الصلاة مت کہنا بلکہ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کرنا۔ (صحیح البخاری، الجمعة، حدیث:901) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کیچڑ کے دن خطبہ دینے کا ارادہ فرمایا، مؤذن جب حي علی الصلاة پر پہنچا تو اسے حکم دیا کہ وہ الصلاة في الرحال کے الفاظ کہے۔ (صحیح البخاري، الأذان،حدیث:668) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ الصلاة في الرحال کے الفاظ حي علی الصلاة کی جگہ پر کہے جائیں۔ امام ابن خزیمہ ؒ نے ان الفاظ کے پیش نظر اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ بارش کہ دن حي علی الصلاة کے الفاظ حذف کردیے جائیں۔ ان حضرات نے جب اذان کے مفہوم پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حي علی الصلاة کہنے، پھر الصلاة في الرحال یا صلوا في بيوتكم کا اعلان کرنے میں بظاہر تضاد ہے، اس لیے حي علی الصلاة کے الفاظ حذف کر دیے جائیں۔ (فتح الباري:130/2) (2) حي علی الصلاة کے بعد یہ اعلان کیا جائے۔ اس کے متعلق ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ سخت سردی کی رات میں مؤذن نے اذان دی تو اس نے حي علی الصلاة کہنے کے بعد گھروں میں نماز پڑھنےکا اعلان کیا۔ (المصنف عبدالرزاق:501/1) (3) گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان اذان مکمل ہونے کے بعد کیا جائے۔ جیسا کہ مذکورہ روایت میں حضرت ابن عمر ؓ نے اس امر کی صراحت کی ہے تاکہ اذان کا نظم متاثر نہ ہو۔ ہمارے نزدیک راجح آخری موقف ہے کہ اذان کی تکمیل کے بعد گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کیا جائے، کیونکہ ان الفاظ سے اگر کوئی فائدہ اٹھا کر گھر میں نماز پڑھنا چاہے تو اس کےلیے رخصت ہے اور اگر حي علی الصلاة کے پیش نطر تکلیف برداشت کرکے مسجد میں آتا ہے تو اس کے لیے یقیناً یہ امر باعث اجرو ثواب ہوگا۔ اس سلسلے میں حضرت جابر ؓ سے ایک روایت مروی ہے کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر میں نکلے تو بارش ہونے لگی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر کوئی خیمے میں نماز پڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1603(698)) (4) حدیث میں سفر کا ذکر اتفاقی ہے۔ اگر ایسے حالات حضر میں پیدا ہو جائیں تو عام حالات میں بھی مذکورہ اعلان کیا جاسکتا ہے تاکہ لوگوں کو سہولت رہے اور مسجد میں آنے کی تکلیف سے محفوظ رہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
627
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
632
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
632
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
632
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ دوران سفر میں صبح کی دو اذانیں نہ کہی جائیں بلکہ ایک اذان ہی کافی ہے۔
حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک مرتبہ سخت سردی کی رات میں ضجنان پہاڑی پر اذان دی، پھر فرمایا: ’’اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں سخت سردی یا بارش کی رات میں اپنے مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اذان کہنے کے بعد یوں کہہ دے: توجہ سے سنو! ’’اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوان کے آخری حصے کو ثابت کرنے کےلیے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھنے کا اعلان حي علی الصلاة کی جگہ یا اس کے بعد یا اذان سے فراغت کے بعد کیا کہا جائے؟ متقدمین کے ہاں اس کے متعلق تین موقف حسب ذیل ہیں: ٭حي علی الصلاة کی جگہ ان الفاظ کو کہا جائے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے مؤذن کو کہا کہ جب تو أشهد ان محمداً رسول الله کہے تو حي علی الصلاة مت کہنا بلکہ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کرنا۔ (صحیح البخاری، الجمعة، حدیث:901) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے کیچڑ کے دن خطبہ دینے کا ارادہ فرمایا، مؤذن جب حي علی الصلاة پر پہنچا تو اسے حکم دیا کہ وہ الصلاة في الرحال کے الفاظ کہے۔ (صحیح البخاري، الأذان،حدیث:668) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ الصلاة في الرحال کے الفاظ حي علی الصلاة کی جگہ پر کہے جائیں۔ امام ابن خزیمہ ؒ نے ان الفاظ کے پیش نظر اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ بارش کہ دن حي علی الصلاة کے الفاظ حذف کردیے جائیں۔ ان حضرات نے جب اذان کے مفہوم پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حي علی الصلاة کہنے، پھر الصلاة في الرحال یا صلوا في بيوتكم کا اعلان کرنے میں بظاہر تضاد ہے، اس لیے حي علی الصلاة کے الفاظ حذف کر دیے جائیں۔ (فتح الباري:130/2) (2) حي علی الصلاة کے بعد یہ اعلان کیا جائے۔ اس کے متعلق ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ سخت سردی کی رات میں مؤذن نے اذان دی تو اس نے حي علی الصلاة کہنے کے بعد گھروں میں نماز پڑھنےکا اعلان کیا۔ (المصنف عبدالرزاق:501/1) (3) گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان اذان مکمل ہونے کے بعد کیا جائے۔ جیسا کہ مذکورہ روایت میں حضرت ابن عمر ؓ نے اس امر کی صراحت کی ہے تاکہ اذان کا نظم متاثر نہ ہو۔ ہمارے نزدیک راجح آخری موقف ہے کہ اذان کی تکمیل کے بعد گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کیا جائے، کیونکہ ان الفاظ سے اگر کوئی فائدہ اٹھا کر گھر میں نماز پڑھنا چاہے تو اس کےلیے رخصت ہے اور اگر حي علی الصلاة کے پیش نطر تکلیف برداشت کرکے مسجد میں آتا ہے تو اس کے لیے یقیناً یہ امر باعث اجرو ثواب ہوگا۔ اس سلسلے میں حضرت جابر ؓ سے ایک روایت مروی ہے کہ ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سفر میں نکلے تو بارش ہونے لگی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر کوئی خیمے میں نماز پڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1603(698)) (4) حدیث میں سفر کا ذکر اتفاقی ہے۔ اگر ایسے حالات حضر میں پیدا ہو جائیں تو عام حالات میں بھی مذکورہ اعلان کیا جاسکتا ہے تاکہ لوگوں کو سہولت رہے اور مسجد میں آنے کی تکلیف سے محفوظ رہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبیداللہ بن عمر عمری سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر اذان دی پھر فرمایا کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ مؤذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ یہ حکم سفر کی حالت میں یا برسات کی راتوں میں تھا۔
حدیث حاشیہ:
کیونکہ ارشادباری ہے۔ ماجعل علیکم في الدین من حرج ( الحج:78 ) دین میں تنگی نہیں ہے۔ ضجنان مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کا نام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): Once in a cold night, Ibn 'Umar (RA) pronounced the Adhan for the prayer at,Dajnan (the name of a mountain) and then said, "Pray at your homes", and informed us that Allah's Apostle (ﷺ) used to tell the Mu'adhdin to pronounce Adhan and say, "Pray at your homes" at the end of the Adhan on a rainy or a very cold night during the journey."