تشریح:
(1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ جب مؤذن قد قامت الصلاة کے الفاظ کہہ دے تو امام کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اختتام پر تکبیر تحریمہ کہہ دے اور نماز شروع کردے۔ امام بخاری ؒ فرماتےہیں کہ یہ تشریع ایجادِ بندہ ہے، چنانچہ اقامت کے بعد اگر امام کوکوئی ضرورت آپڑے تو اسے پورا کرسکتا ہے، یعنی اقامت کے فوراً بعد امام کو نماز شروع کرنا لازم نہیں، نیز اگر تاخیر ہو جائے تو اقامت کا اعادہ بھی ضروری نہیں۔
(2) امام بخاری ؒ کا مقصد شرعی سہولتوں کو بیان کرنا ہے۔ آج مصروفیاتِ زندگی حد سے بڑھ چکی ہیں، اس لیے امام کو مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے لیکن طریقۂ نبوی کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ واضح رہے کہ سونے سے مراد اونگھنا ہے، جیسا کہ ابن حبان کی روایت میں ہے۔ چونکہ عشاء کی نماز کے وقت میں کافی وسعت ہوتی ہے اور باتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز کو مؤخر فرما دیا، نیز یہ سہولت صرف امام کے لیے ہے، مقتدیوں کے لیے نہیں۔ (فتح الباري:163/2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان فصل کیا جاسکتا ہے، بلاوجہ ایسا کرنا ناپسندیدہ عمل ہے۔