تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین زمانوں کو بہترین زمانہ قرار دیا ہے۔ واقعی یہ وقت خیر و برکت کا تھا۔ اس کے بعد عجیب و غریب بدعات نے سر نکالا۔ فلاسفہ پیدا ہوئے جو دین اسلام کو خود ساختہ عقل کے آئینے میں دیکھنے لگے۔ معتزلہ نے زبانیں کھولیں، پھر اہل علم کو فتنۂ خلق قرآن سے دوچار ہونا پڑا۔ حالات تبدیل ہو گئے۔ سنگین قسم کے اختلافات پیدا ہو گئے اور روز بروز احکام شریعت میں کمی ہونے لگی۔
(2) دینی معاملات میں انحطاط اس قدر ہو گا کہ جھوٹی گواہی دینے یا جھوٹی قسم اٹھانے میں انہیں کوئی تردد نہیں ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ جھوٹی گواہی دینے والوں کی کثرت ہے۔ ہمارے عدالتی نظام میں دولت کے بل بوتے پر ہر قسم کے گواہ دستیاب ہیں۔ امانتوں میں خیانت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ قومی خزانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے، پھر عہد و پیمان کر کے اسے توڑنے والوں کی بہتات ہے۔ ایسے لوگ ناجائز پیسہ حاصل کر کے جسمانی اعتبار سے موٹی موٹی توندوں والے بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں، خاص طور پر محکمہ پولیس میں اعلیٰ افسران اس کی زندہ مثال ہیں۔ یہ لوگ موٹاپے کو پسند کرتے ہیں، اگرچہ طبعی طور پر موٹاپا مذموم نہیں لیکن فکر آخرت رکھنے والے انسان کو نہ تو موٹاپا آتا ہے اور نہ اس کی توند ہی بڑھتی ہے۔ واللہ المستعان