قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الرِّقَاقِ (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «هَذَا المَالُ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ»)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَالبَنِينَ وَالقَنَاطِيرِ المُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ، وَالخَيْلِ المُسَوَّمَةِ، وَالأَنْعَامِ وَالحَرْثِ، ذَلِكَ مَتَاعُ الحَيَاةِ الدُّنْيَا} [آل عمران: 14] قَالَ عُمَرُ: «اللَّهُمَّ إِنَّا لاَ نَسْتَطِيعُ إِلَّا أَنْ نَفْرَحَ بِمَا زَيَّنْتَهُ لَنَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ أُنْفِقَهُ فِي حَقِّهِ»

6441. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، وَسَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ: «هَذَا المَالُ» - وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ لِي - «يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ آل عمران : ۴میں ) فرمایا کہ انسانوں کو خواہشات کی تڑپ ، عورتوں ، بال ، بچوں ڈھیر وں سونے چاندی ، نشان لگے ہوئے گھوڑوں اور چوپایوں کھیتوں میں محبوب بنادی گئی ہے، یہ چند روزہ زندگانی کا سرماےہ ہے۔ حضرت عمر ؓنے کہا کہ اے اللہ! ہم تو سوااس کے کچھ طاقت ہی نہیں رکھتے کہ جس چیز سے تو نے ہمیں زینت بخشی ہے اس پر ہم طبعی طور پر خوش ہوں۔ اے اللہ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ اس مال کو توحق جگہ پر خرچ کرائیو۔

6441.

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر سوال کیا تو آپ نے دیا۔ میں نے تیسری مرتبہ مانگا تو آپ ﷺ نے عطا کیا، پھر فرمایا: ’’اے حکیم! دنیا کا یہ مال شیریں اور ہرابھرا (خوشگوار) نظر آتا ہے، لہذا جو شخص اسے نیک نیتی سے حرص کے بغیر لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو اسے لالچ اور طمع کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے، جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘