Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The saying of a person "We have missed As-Salat (the prayer)")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
امام ابن سیرین نے اس کو مکروہ جانا ہے کہ کوئی کہے کہ نماز نے ہمیں چھوڑ دیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہم نماز نہ پا سکے اور نبی کریمﷺ کا فرمان ہی زیادہ صحیح ہے۔تشریح : ابن سیرین کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا۔ حضرت امام بخاری نے امام ابن سیرین کا رد کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ یوں کہنا درست ہے کہ ہماری نماز جاتی رہی، جب یہ قول رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے توپھراسے مکروہ قراردینا درست نہیں ہے
645.
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے لوگوں کا کچھ شوروغل سنا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’تمہارا کیا حال ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ہم نے نماز میں شمولیت کے لیے بہت جلدی کی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’آئندہ ایسا نہ کرنا بلکہ جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور سکون کو ملحوظ رکھو، پھر جس قدر نماز ملے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔‘‘
تشریح:
(1) مؤذن کی دعوت پر لبیك کہتے ہوئے ممکن ہے کہ نماز مکمل یا جزوی طور پر رہ جائے، اس لیے اس بات کی وضاحت ضروری تھی کہ اپنی کوتاہی کو کن الفاظ سے بیان کیا جائے ؟ ایسے حالات میں نماز کے لیے آنے کا کیا انداز ہو؟ نماز رہ جانے کی صورت میں اسے کس طرح پڑھا جائے؟ امام بخاری ؒ نے اس باب میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ اس سلسلے میں پہلا ادب یہ ہے کہ اپنی کوتاہی کو بیان کرتے ہوئے اگر کہہ دیا جائے کہ ہماری نماز رہ گئی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ اسلوب اختیار کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی، چنانچہ اس حدیث میں خود رسول اللہ ﷺ نے’’رہ جانے‘‘ کی نسبت نماز کی طرف فرمائی ہے، بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ ایک مرتبہ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نیند کی وجہ سے نماز بروقت نہ پڑھ سکے تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ہم سے نماز رہ گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ کے استعمال پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ انھیں برقرار رکھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی کراہت نہیں۔ (فتح الباري:153/2) (2) واضح رہے کہ امام ابن سیرین ؒ کی ناپسندیدگی کا تعلق تہذیب الفاظ سے ہے، اظہار مدعا سے نہیں جیسا کہ شریعت نے عتمہ کا لفظ نماز عشاء پر اور یثرب کا لفظ مدینہ طیبہ پر ناپسند فرمایا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
630
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
635
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
635
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
635
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام ابن سیرین کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (3/631)میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی طرف رہ جانے کی نسبت کرنا خلاف اولیٰ ہے بلکہ انسان کو چاہیے کہ کوتاہی کہ نسبت خود اپنی طرف کرے۔امام بخاری رحمہ اللہ اس کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت ہونے کی نسبت نماز کی طرف فرمائی ہے تو اس کو ترجیح ہے ،لہٰذا اسے خلاف اولیٰ قرار دینا محل نظر ہے۔
امام ابن سیرین نے اس کو مکروہ جانا ہے کہ کوئی کہے کہ نماز نے ہمیں چھوڑ دیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہم نماز نہ پا سکے اور نبی کریمﷺ کا فرمان ہی زیادہ صحیح ہے۔تشریح : ابن سیرین کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا۔ حضرت امام بخاری نے امام ابن سیرین کا رد کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ یوں کہنا درست ہے کہ ہماری نماز جاتی رہی، جب یہ قول رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے توپھراسے مکروہ قراردینا درست نہیں ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دفعہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک آپ نے لوگوں کا کچھ شوروغل سنا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’تمہارا کیا حال ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ہم نے نماز میں شمولیت کے لیے بہت جلدی کی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’آئندہ ایسا نہ کرنا بلکہ جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور سکون کو ملحوظ رکھو، پھر جس قدر نماز ملے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) مؤذن کی دعوت پر لبیك کہتے ہوئے ممکن ہے کہ نماز مکمل یا جزوی طور پر رہ جائے، اس لیے اس بات کی وضاحت ضروری تھی کہ اپنی کوتاہی کو کن الفاظ سے بیان کیا جائے ؟ ایسے حالات میں نماز کے لیے آنے کا کیا انداز ہو؟ نماز رہ جانے کی صورت میں اسے کس طرح پڑھا جائے؟ امام بخاری ؒ نے اس باب میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ اس سلسلے میں پہلا ادب یہ ہے کہ اپنی کوتاہی کو بیان کرتے ہوئے اگر کہہ دیا جائے کہ ہماری نماز رہ گئی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ اسلوب اختیار کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی، چنانچہ اس حدیث میں خود رسول اللہ ﷺ نے’’رہ جانے‘‘ کی نسبت نماز کی طرف فرمائی ہے، بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ ایک مرتبہ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نیند کی وجہ سے نماز بروقت نہ پڑھ سکے تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ہم سے نماز رہ گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ کے استعمال پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ انھیں برقرار رکھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی کراہت نہیں۔ (فتح الباري:153/2) (2) واضح رہے کہ امام ابن سیرین ؒ کی ناپسندیدگی کا تعلق تہذیب الفاظ سے ہے، اظہار مدعا سے نہیں جیسا کہ شریعت نے عتمہ کا لفظ نماز عشاء پر اور یثرب کا لفظ مدینہ طیبہ پر ناپسند فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
امام ابن سیرین نے اسے مکروہ خیال کیا ہے کہ آدمی کہے: ہماری نماز جاتی رہی، بلکہ اس طرح کہنا چاہئے کہ ہم نماز کو نہیں پا سکے لیکن نبیﷺکا فرمان زیادہ صحیح ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان بن عبدالرحمن نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انھوں نے اپنے والد قتادہ ؓ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز میں تھے۔ آپ نے کچھ لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آواز سنی۔ نماز کے بعد آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا قصہ ہے لوگوں نے کہا کہ ہم نماز کے لیے جلدی کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ بلکہ جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور سکون کو ملحوظ رکھو، نماز کا جو حصہ پاؤ اسے پڑھو اور اور جو رہ جائے اسے (بعد) میں پورا کر لو۔
حدیث حاشیہ:
حدیث کے لفظ ومافاتکم سے حضرت امام ؒ نے باب کو ثابت فرمایاہے اورگفتگو کا سلیقہ سکھلایا ہے کہ یوں کہنا چاہئیے کہ نماز کا جو حصہ تم پا سکو اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے بعد میں پورا کر لو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Abi Qatada (RA): My father said, "While we were praying with the Prophet (ﷺ) he heard the noise of some people. After the prayer he said, 'What is the matter?' They replied 'We were hurrying for the prayer.' He said, 'Do not make haste for the prayer, and whenever you come for the prayer, you should come with calmness, and pray whatever you get (with the people) and complete the rest which you have missed."