صحیح بخاری
10. کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
22. باب: اس بیان میں کہ نماز کا جو حصہ (جماعت کے ساتھ) پا سکو اسے پڑھ لو اور جو نہ پا سکو اسے بعد میں پورا کر لو۔
باب: اس بیان میں کہ نماز کا جو حصہ (جماعت کے ساتھ) پا سکو اسے پڑھ لو اور جو نہ پا سکو اسے بعد میں پورا کر لو۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: One should not run for As-Salat (the prayer) but present himself with calmness and solemnity)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
نماز کا جو حصہ(جماعت کے ساتھ)پا سکو اسے پڑھ لو اور جو نہ پا سکو اسے بعد میں پورا کر لو۔ یہ مسئلہ ابوقتادہ ؓ نے نبی کریمﷺسے روایت کیا ہے۔
646.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جب تم اقامت سنو تو نماز کے لیے سکون و وقار کے ساتھ چلو، تیزی اختیار نہ کرو، پھر جس قدر نماز مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔‘‘
تشریح:
(1) نماز کےلیے تیز دوڑ کر آنے والے کی دو صورتیں ہیں: ٭ایک یہ کہ نماز کے لیے اقامت ہوچکی ہو، نمازی اس لیے تیزی کرتا ہے کہ وہ جلدی نماز میں شامل ہوکر تکبیر اولیٰ کی فضیلت حاصل کرسکے، لیکن اس قسم کے اچھےجذبات رکھنے کے باوجود نماز کے لیے تیز دوڑ کر آنے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ مذکوہ حدیث میں ہے ۔٭دوسری صورت یہ ہے کہ ابھی نماز کے لیے اقامت نہیں ہوئی، وہ یقینا تکبیر اولیٰ اور پہلی رکعت میں شامل ہوسکتا ہے، اس کے باوجود وہ نماز میں شمولیت کے لیے دوڑ کر آتا ہے، اس سے بھی منع کیا گیا، جیسا کہ حدیث ابی قتادۃ ؓ (635) میں ہے، کیونکہ ایسا کرنا نماز کے وقار اور سکون کے خلاف ہے۔ بعض حضرات نے اس امتناعی حکم کی حکمت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ اقامت کے بعد تیز دوڑ کر نماز میں شامل ہونے والے کا سانس چڑھا ہو گا جو دوران نماز میں خشوع خضوع کے منافی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی قراءت اور نماز سے متعلقہ دیگر احکام متاثر ہوسکتے ہیں۔ (2) صحیح مسلم کی روایت میں اضافہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی نماز کا قصد کرتا ہے تو نماز ادا کرنے سے قبل ہی بحالت نماز شمار ہوتا ہے۔ اس بنا پر نمازی کو نماز سے پہلے بھی ایسے کاموں سے اجتناب کرنا ہوگا جو نماز کے منافی ہیں۔ آرام و سکون سے نماز کی طرف آنے کی وجہ سے اگر نماز کا کچھ حصہ بھی نہ پاسکا تو بھی نماز کے ثواب سے محروم نہیں ہوگا۔ نماز کے لیے پروقار طریقے سے آنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ آہستہ آہستہ چلنا بھی اس کے ثواب میں اضافے کا باعث ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے اسے نماز کےلیے زیادہ قدم اٹھانے ہوں گے اور ہر قدم کے بدلے درجات کا بلند ہونا حدیث سے ثابت ہے۔ (فتح الباري:154/2) (3) صلاۃ مسبوق (جس آدمی کی نماز کا کچھ حصہ فوت ہوجائے) کی ترتیب کا مسئلہ بھی اس حدیث کے تحت آتا ہے، کیونکہ اس حدیث کو بیان کرنے والے اکثر راوی باقی ماندہ نماز پڑھنے کےلیے لفظ اتمام بیان کرتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ امام کے ساتھ ادا کردہ نماز آخری حصہ ہے، اسے پہلے حصے کو پورا کرنا ہو گا۔ اس اختلاف کا نتیجہ اس صورت میں برآمد ہوگا کہ ایک آدمی امام کے ساتھ مغرب کی تیسری رکعت میں شامل ہوتا ہے، امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس نے باقی ماندہ دو رکعت ادا کرنی ہیں، اتمام والے (شوافع) حضرات کے نزدیک اگرچہ امام کی آخری رکعت تھی، لیکن مسبوق کی پہلی رکعت مکمل ہے، اس لیے سلام کے بعد پہلی رکعت کے ساتھ ایک رکعت ملا کر تشہد بیٹھے گا، پھر تیسری رکعت پڑھ کر قعدۂ اخیرہ کرے گا اور سلام پھیرے گا۔ اس کے برعکس قضا والے (احناف) حضرات کا موقف ہے کہ امام کے ساتھ اس کی آخری رکعت ادا ہوئی ہے، اب اس نے پہلی اور دوسری رکعت پڑھنی ہے، اس لیے وہ سلام کے بعد پہلی رکعت میں ثنا، تعوذ اور فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت بھی ملائے گا، اس طرح وہ دوسری رکعت پڑھ کر قعدۂ اخیرہ بیٹھے گا اور سلام پھیرے گا۔ ہمارے نزدیک پہلی صورت راجح ہے جس کے حسب ذیل دلائل ہیں:٭حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ امام کے ساتھ جو نماز تم پا لو وہ تمھاری پہلی نماز ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي:299/2)٭اتمام کا حکم اس بات کا ثبوت ہے کہ امام کے ساتھ مسبوق نے جتنی نماز پڑھی تھی وہ اس کی ابتدائی نماز تھی۔ اور جن روایات میں لفظ قضا ہے وہ بھی اتمام کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ﴾’’پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ۔‘‘(الجمعة 62: 10) (3) اگر امام کے ساتھ پڑھی گئی نماز مسبوق کی آخری رکعت ہو تو اسے باقی ماندہ نماز کی آخری رکعت کے لیے تشہد پڑھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ امام کے ساتھ اسے پڑھ چکا ہے، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، بلکہ تمام حضرات اسے امام کے ساتھ تشہد پڑھ لینے کے باوجود بھی آخری رکعت میں تشہد پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
631
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
636
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
636
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
636
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں اس عنوان کا آغاز(ما ادركتم فصلوا) سے ہوتا ہے ۔ان میں عنوان کے ابتدائی الفاظ نہیں ہیں۔سیاق وسباق کا تقاضا ہے کہ مذکورہ الفاظ کا ہونا ہی درست ہے۔ حضرت ابو قتادہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مذکورہ الفاظ حدیث:635 کے تحت گزر چکے ہیں۔
نماز کا جو حصہ (جماعت کے ساتھ) پا سکو اسے پڑھ لو اور جو نہ پا سکو اسے بعد میں پورا کر لو۔ یہ مسئلہ ابوقتادہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جب تم اقامت سنو تو نماز کے لیے سکون و وقار کے ساتھ چلو، تیزی اختیار نہ کرو، پھر جس قدر نماز مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے (بعد میں) پورا کر لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) نماز کےلیے تیز دوڑ کر آنے والے کی دو صورتیں ہیں: ٭ایک یہ کہ نماز کے لیے اقامت ہوچکی ہو، نمازی اس لیے تیزی کرتا ہے کہ وہ جلدی نماز میں شامل ہوکر تکبیر اولیٰ کی فضیلت حاصل کرسکے، لیکن اس قسم کے اچھےجذبات رکھنے کے باوجود نماز کے لیے تیز دوڑ کر آنے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ مذکوہ حدیث میں ہے ۔٭دوسری صورت یہ ہے کہ ابھی نماز کے لیے اقامت نہیں ہوئی، وہ یقینا تکبیر اولیٰ اور پہلی رکعت میں شامل ہوسکتا ہے، اس کے باوجود وہ نماز میں شمولیت کے لیے دوڑ کر آتا ہے، اس سے بھی منع کیا گیا، جیسا کہ حدیث ابی قتادۃ ؓ (635) میں ہے، کیونکہ ایسا کرنا نماز کے وقار اور سکون کے خلاف ہے۔ بعض حضرات نے اس امتناعی حکم کی حکمت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ اقامت کے بعد تیز دوڑ کر نماز میں شامل ہونے والے کا سانس چڑھا ہو گا جو دوران نماز میں خشوع خضوع کے منافی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی قراءت اور نماز سے متعلقہ دیگر احکام متاثر ہوسکتے ہیں۔ (2) صحیح مسلم کی روایت میں اضافہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی نماز کا قصد کرتا ہے تو نماز ادا کرنے سے قبل ہی بحالت نماز شمار ہوتا ہے۔ اس بنا پر نمازی کو نماز سے پہلے بھی ایسے کاموں سے اجتناب کرنا ہوگا جو نماز کے منافی ہیں۔ آرام و سکون سے نماز کی طرف آنے کی وجہ سے اگر نماز کا کچھ حصہ بھی نہ پاسکا تو بھی نماز کے ثواب سے محروم نہیں ہوگا۔ نماز کے لیے پروقار طریقے سے آنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ آہستہ آہستہ چلنا بھی اس کے ثواب میں اضافے کا باعث ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے اسے نماز کےلیے زیادہ قدم اٹھانے ہوں گے اور ہر قدم کے بدلے درجات کا بلند ہونا حدیث سے ثابت ہے۔ (فتح الباري:154/2) (3) صلاۃ مسبوق (جس آدمی کی نماز کا کچھ حصہ فوت ہوجائے) کی ترتیب کا مسئلہ بھی اس حدیث کے تحت آتا ہے، کیونکہ اس حدیث کو بیان کرنے والے اکثر راوی باقی ماندہ نماز پڑھنے کےلیے لفظ اتمام بیان کرتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ امام کے ساتھ ادا کردہ نماز آخری حصہ ہے، اسے پہلے حصے کو پورا کرنا ہو گا۔ اس اختلاف کا نتیجہ اس صورت میں برآمد ہوگا کہ ایک آدمی امام کے ساتھ مغرب کی تیسری رکعت میں شامل ہوتا ہے، امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس نے باقی ماندہ دو رکعت ادا کرنی ہیں، اتمام والے (شوافع) حضرات کے نزدیک اگرچہ امام کی آخری رکعت تھی، لیکن مسبوق کی پہلی رکعت مکمل ہے، اس لیے سلام کے بعد پہلی رکعت کے ساتھ ایک رکعت ملا کر تشہد بیٹھے گا، پھر تیسری رکعت پڑھ کر قعدۂ اخیرہ کرے گا اور سلام پھیرے گا۔ اس کے برعکس قضا والے (احناف) حضرات کا موقف ہے کہ امام کے ساتھ اس کی آخری رکعت ادا ہوئی ہے، اب اس نے پہلی اور دوسری رکعت پڑھنی ہے، اس لیے وہ سلام کے بعد پہلی رکعت میں ثنا، تعوذ اور فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت بھی ملائے گا، اس طرح وہ دوسری رکعت پڑھ کر قعدۂ اخیرہ بیٹھے گا اور سلام پھیرے گا۔ ہمارے نزدیک پہلی صورت راجح ہے جس کے حسب ذیل دلائل ہیں:٭حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ امام کے ساتھ جو نماز تم پا لو وہ تمھاری پہلی نماز ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي:299/2)٭اتمام کا حکم اس بات کا ثبوت ہے کہ امام کے ساتھ مسبوق نے جتنی نماز پڑھی تھی وہ اس کی ابتدائی نماز تھی۔ اور جن روایات میں لفظ قضا ہے وہ بھی اتمام کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ﴾’’پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ۔‘‘(الجمعة 62: 10) (3) اگر امام کے ساتھ پڑھی گئی نماز مسبوق کی آخری رکعت ہو تو اسے باقی ماندہ نماز کی آخری رکعت کے لیے تشہد پڑھنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ امام کے ساتھ اسے پڑھ چکا ہے، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، بلکہ تمام حضرات اسے امام کے ساتھ تشہد پڑھ لینے کے باوجود بھی آخری رکعت میں تشہد پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس قدر نماز تمہیں مل جائے اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کر لو۔" یہ مسئلہ حضرت ابوقتادہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمن بن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام زہری نے سعید بن مسیب سے بیان کیا، انھوں نے ابوہریرہ ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے (دوسری سند) اور زہری نے ابوسلمہ سے، انھوں نے ابوہریرہ ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے آپ نے فرمایا تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے (معمولی چال سے) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو (بہرحال) پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "When you hear the Iqama, proceed to offer the prayer with calmness and solemnity and do not make haste. And pray whatever you are able to pray and complete whatever you have missed.