تشریح:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث اور اس روایت میں درجات کی تعداد کے متعلق بظاہر تعارض ہے۔ محدثین کرام نے اس میں کئی ایک انداز سے تطبیق دی ہے:٭امام ترمذی ؒ نے پچیس درجات والی روایت کو راجح قرار دیا ہے اور ستائیس درجات والی روایت کو حضرت ابن عمر ؓ کے منفردات و غرائب میں شمار کیا ہے۔٭کم تعداد والی روایت کو ابتدائی طور پر محمول کیا جائے اور زیادہ والی حدیث کو انتہا قرار دیاجائے، کیونکہ اللہ کی رحمت سے یہ بعید ہے کہ وہ کوئی چیز دے کر پھر اسے واپس لےلے۔٭سری نمازوں میں پچیس درجات کی فضیلت ہے جبکہ جہری نمازوں میں ستائیس درجات کی برتری حاصل ہوگی۔٭درجات کا یہ تفاوت نمازیوں کے قلیل و کثیر ہونے کے پیش نظر ہے۔ اگر نمازی کم ہیں تو پچیس درجے اور زیادہ ہیں تو ستائیس درجے زیادہ ثواب ہوگا۔٭نماز باجماعت پڑھنے والے کے اخلاص وتقویٰ اور خشوع خضوع میں تفاوت کی وجہ سے ثواب میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، یعنی درجات کا تفاوت اختلاف احوال پر مبنی ہے۔٭چونکہ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت میں اضافہ ہے اور ثقہ کی زیادتی قبول ہوتی ہے، لہٰذا ستائیس درجے والی ابن عمر ؓ کی روایت راجح قرار دیاجائے۔٭ہر نماز میں پچیس اور فجر وعصر میں ستائیس درجے ہوں کیونکہ ان دونوں نمازوں میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ ٭درجات کا یہ تفاوت مسجد کے دور اور قریب ہونے پر مبنی ہے کیونکہ مسجد جتنی دور ہوگی، اس میں نماز پڑھنے کے لیے جانا زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ (فتح الباري:173/2) والله أعلم.