تشریح:
(1) اس حدیث میں لوگوں سے بے نیاز رہنے کی ترغیب ہے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے صبر کے ذریعے سے لوگوں سے نہ مانگنے پر ابھارا گیا ہے، نیز انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے رزق کا انتظار کرے اور بے صبری کو اپنے پاس نہ آنے دے کیونکہ صبر سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں، اس پر بلا حد و حساب اجروثواب کا وعدہ ہے۔
(2) بلا ضرورت سوال کرنا حرام ہے اور صبر کے ذریعے سے اس حرام کے ارتکاب سے باز رہنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ عنوان کا مقصد بھی یہی ہے۔
(3) بہرحال صبر ایک عجیب نعمت ہے۔ صابر انسان کی طرف لوگوں کے دل مائل ہو جاتے ہیں اور وہ اس سے ہمدردی کرنے کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (البقرة: 153/2) حدیث کے آخری الفاظ: ’’کسی بندے کو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی۔‘‘ قابل غور ہیں، واقعہ یہی ہے کہ صبر دل کی جس کیفیت کا نام ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں ایک مقام پر صبر کو نماز پر مقدم کیا گیا ہے۔ (البقرة: 45/2)